بہت گھٹن ہے کوئی صورت بیاں نکلے !!!

0
77

مملکتِ خدادِ پاکستان کے بارے میں جن خدشات کا اظہار گزشتہ دو تین سال سے کیا جا رہا تھا، وہ اب حقیقت بن کر ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ ایوب، یحیی، ضیا اور مشرف کے بعد، آج ایک مرتبہ پھر ہمارا ملک سرزمینِ بے آئین بن چکا ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ کچھ اس طرح بے اثر اور بے توقیر ہوئی ہیں کہ انکی بحالی کیلئے شاید کافی عرصہ لگ جائے گا۔ مقتدرہ اگر معقول افراد پر مشتمل ہو تو قانون اور آئین کی قیود و حدود سے آزاد ہو کر کم از کم مادی ترقی کی رفتار تو تیز کر دیتی ہے، جیسے ایوب، ضیا اور مشرف کے دور میں دیکھنے کو ملا تھا۔ تکلیف اس بات کی ہے کہ آج کا دور ہمیں یحیی کے دور کی مانند محسوس ہو رہا ہے جب ہمارا ملک ٹوٹ گیا تھا۔ اشرافیہ اور عام آدمی کے درمیان فاصلے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ نام نہاد قانون اندھا اور بہرہ ہونے کی بجائے صرف اشرافیہ کو انصاف دینے کا کام کر رہا ہے۔ ساحر لدھیانوی نے خوب کہا تھا،
فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
یحیی دور کی طرح ہماری موجودہ مقتدرہ بھی انتہای بزدل اور نااہل ثابت ہوئی ہے۔ پورا ملک گروی رکھنے کے باوجود بھی، معیشت نہیں سنبھل پا رہی۔ سیاست دانوں کو بے توقیر اور بے اثر کرنے کے بعد بھی دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا رہا۔ میڈیا پر ایسی سخت پابندیاں ہیں کہ سنسر شپ کی آخری حدود بھی پار کی جا چکی ہیں۔ جبری گمشدگیاں اور جعلی پولیس مقابلے روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔ اپنے ہی ملک کے شہریوں پر فضائی حملے کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی جا رہی۔ ساحر کے الفاظ میں،
بہت گھٹن ہے کوئی صورت بیاں نکلے
اگر صدا نہ اٹھے کم سے کم فغاں نکلے
کے رجیم چینج آپریشن کے بعد، ابتدائی ایک سال تک تو پچھلی تین سالہ حکومت کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہرانا آسان تھا لیکن اب پچھلے دو سال سے خان جیل کی کوٹھڑی میں بند ہے۔ اس کی تقریر و تصویر بھی پاکستان کے عام آدمی نہیں دیکھ سکتے۔ اس کے باوجود بھی لوگ ابھی تک اس بند خدا کیلئے پاگل ہوئے پھرتے ہیں۔ طویل سزائیں سنانے کے ساتھ ساتھ اس کی بیوی کو بھی جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔ مقتدرہ کی نظر میں، ان دونوں کے جرائم یقینا بہت سنگین ہونگے لیکن عام آدمی کو بھی یہ باور کروانا مقتدرہ اور اس کے ماتحت میڈیا کا فرض ہے کہ ان دونوں میاں بیوی سے معاشرے کو بہت بڑا خطرہ درپیش ہے تاکہ وہ انہیں بھول جائیں اور اشرافیہ کی آرام دہ زندگی میں کوئی خلل نہ ڈالیں۔ افسوس کہ مقتدرہ اپنے فرائض ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور اسی لئے اسے اب وقت کی عمرانی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کچھ پیچھے ہٹنا ہی پڑے گا۔ ورنہ ساحر تو کہہ ہی چکے ہیں کہ!
حقیقتیں ہیں سلامت تو خواب بہتیرے
ملال یہ ہے کہ کچھ خواب رائیگاں نکلے
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی مقتدرہ، ہمیشہ سے بہت طاقتور رہی ہے۔ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگیں ہوں یا چاہے دیگر سیاسی پارٹیاں، مقتدرہ کے ظلم و جبر کے سامنے چند ہفتوں میں ہی بکھر کر فضا میں تحلیل ہو جایا کرتی ہیں۔ خان کی بنائی ہوئی سیاسی پارٹی بھی بظاہر تقریبا بے اثر و بے وقعت ہو چکی ہے لیکن عمرانی حقیقت سے نبٹنا موجودہ مقتدرہ کیلئے ممکن نظر نہیں آرہا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹیپو سلطان، نیلسن منڈیلا اور مہاتما گاندھی کی چیدہ چیدہ خصوصیات پر مشتمل عمرانی حقیقت، ریاستِ مدینہ کے قیام کی اور عالمِ اسلام کے مسائل پر بات کرتے ہوئے، پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ناانصافیوں کے ذمہ داران کو چیلنج کر رہی ہے۔ بظاہر تو جیل کی کوٹھڑی میں قید ایک شخص کیلئے یہ چھوٹا منہ بڑی بات والا معاملہ لگتا ہے لیکن وسیم بریلوی نے یہ خوبصورت شعر بھی آخر کسی نہ کسی کیلئے تو کہا ہوگا۔
کوئی ٹوٹی سی کشتی ہی بغاوت پر اتر آئے
تو کچھ دن کو یہ طوفاں سر اٹھانا بھول جاتے ہیں
ہمارے ابتدائی خدشات کے عین مطابق، پیارے ملکِ پاکستان میں سیاست کا تو ایسا خاتمہ ہوا ہے کہ اب کسی پارٹی کیلئے کوئی دلائل دینا تو وقت کا ضیاع معلوم ہوتاہے۔ معیشت ہمیشہ کی طرح ہم نے IMF کے حوالے کی ہوئی ہے کیونکہ اتنی زیادہ کرپشن کے بعد، اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں۔ اب مسئلہ ریاست کا ہے جسے بچانے کی فکر کرنا ہمارے لئے ضروری ہے۔ امید تھی کہ مقتدرہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کوئی بہتر حل نکال لے گی۔ لیکن حالات دن بدن مخدوش ہوتے جا رہے ہیں اور ہماری مقتدرہ کی جانب سے خود غرضی کی وہی انتہا ہے جو میں نظر آئی تھی۔ اپنی حاکمیت بچانے کیلئے ملک کا بٹوارہ بھی قبول کر لیا گیا تھا۔ اس زمانے میں بھی ہر کسی کے سچ بولنے پر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ آج بھی ذرائعِ ابلا غِ عامہ کے حالات کچھ ویسے ہی ہیں۔گھٹن کے اس ماحول کے باوجود ریاست کو بچانے کیلئے آج ہم سب کو بولنا پڑے گا۔ عمران پرتاپگڑھی کے بقول،
میں اس لئے زندہ ہوں کہ میں بول رہا ہوں
دنیا کسی گونگے کی کہانی نہیں لکھتی
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here