دروز ، باطنیوں کا ایک فرقہ ہے۔ باطنیوں کا اغاز 260ھ میں قرامطہ سے ہوا۔ 286ھ میں انہوں نے حاجیوں کا قتل عام کیا۔ پھر حجر اسود کی چوری کی۔ قرامطہ نے الاحسا میں حکومت قائم کی۔ 297ھ میں اسمعیلی باطنی عبیداللہ المہدی نے تونس میں سلطنت عبیدیہ کی بنیاد رکھی۔ مہدی اور گیارھویں (12) امام ہونے کا دعوی کیا۔ 309ھ میں حسین بن منصور حلاج کو انا الحق کے دعوے پر بغداد میں پھانسی دی گئی۔ 356ھ میں سلطنت عبیدیہ ، نے الجیریا ، لیبیا اور مصر کی طرف پیش قدمی کی۔ سلطنت عبیدیہ ، مصر کی اسمعیلی خلافت فاطمیہ میں بدل گئی۔ بو علی المنصور بن العزیز باللہ ( الحاکم بمر اللہ ) ، فاطمی خلافت (Fatimid Caliphate) کا چھٹا خلیفہ تھا اور مصر پر حکومت کرنے والے اسمعیلی شیعہ خلفا میں سے ایک تھا۔ اسمعیلی اور بوہری شیعہ اسے اپنا سولہواں (16) امام کہتے ہیں۔ ابو علی منصور نے ، الحاکم بامر اللہ کا لقب اختیار کیا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ میں اللہ کے حکم سے حکومت کررہا ہوں۔ خلافت کی مدت پچیس سال سے زیادہ تھی۔ الحاکم 985 ( 375ھ )میں مصر کے شہر قاہرہ میں پیدا ہوا۔ 996 تھی کہ کم عمری میں خلیفہ بنایا گیا۔1021( 411ھ) میں اچانک لاپتا ہو گیا، یا پھر خدائی کے دعوے کی وجہ سے قتل کردیا گیا۔ اس کے پر اسرار طور پر غائب ہونے کی وجہ سے بہت سے غلط عقائد نے جنم لیا۔ الحاکم ایک سر پھرا شخص تھا۔ بعض اوقات نہایت ظلم کرتا اور کبھی رعایا پر بہت مہربان ہوجاتا۔ اس نے عورتوں کے دن میں بازار جانے پر پابندی عائد کردی۔ ککڑی اور ملوخیہ سبزی ( Jute Mallow ) کو حرام ٹہرایا۔ اس کے حکم پر یروشلم میں موجود چرچ آف دی ہولی سیپلکر (Holy Sepulchre) کو تباہ کیا گیا، جس سے عیسائی دنیا میں شدید غصہ پھیلا اور یہ واقعہ صلیبی جنگوں کے اسباب میں شمار ہوتا ہے۔ غالبا یہ باطنی طور پر عیسائیوں سے ملا ہوا تھا۔ 1021 میں شہر سے باہر گیا اور غائب ہوگیا۔ اس کے غائب ہونے کے بعد اسکے بیٹے ظاہر کو خلیفہ بنایا گیا۔ کچھ نے الحاکم کو “امامِ غائب” اور کچھ نے “خدا” کہا۔ الحاکم ( سولہویں امام ) کے غائب ہونے کی وجہ سے دروز مذہب (Druze) کا آغاز ہوا، جو اسے الوہیت کا درجہ دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا دوست اور باطنی شاگرد ایک شخص تھا ، جس کا نام “حمزہ دروز” تھا, جس کا پورا نام حمزہ بن علی بن احمد تھا۔ یہ دروزی مذھب کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ 430 ھ میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کے باطنی شاگرد شام ، فسطین اور لبنان کی پہاڑیوں میں پھیل کر باطنیت کی تبلیغ کرتے رہے۔ دروز لوگ ارسطو ، فارابی ، اسمعیلی اخوان الصفا اور اسمعیلی فلسفی ابن سینا کی طرح عقل کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ خدا کو عقل اول کہتے ہیں۔ دروزی لوگ الحاکم کو اللہ کا مظہر اور آخری ظہور مانتے ہیں۔ ان کے ہاں الحاکم نہ مرا ہے، نہ قتل ہوا، بلکہ وہ عالم غیب میں ہے اور قیامت کے قریب ظاہر ہوگا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ( م 728ھ ) ان کے علاقوں اور ان کے عقائد سے بخوبی واقف تھے۔ فرماتے ہیں: “یہ لوگ جنہیں دروز کہا جاتا ہے، وہ زندقہ اور الحاد کے پیروکار ہیں، اور تمام گمراہ فرقوں میں سے بدترین شمار ہوتے ہیں۔ امتِ مسلمہ کے درمیان ان کے کفر پر مکمل اتفاق ہے۔ ان کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں، ان کی عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، اور انہیں مسلمانوں جیسا برتا دینا درست نہیں۔ یہ نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، نہ یومِ آخرت کو مانتے ہیں، نہ انبیا و رسل کو تسلیم کرتے ہیں، نہ آسمانی کتابوں پر یقین رکھتے ہیں، نہ فرشتوں، جنت و دوزخ، نماز، زکو، روزہ، حج یا کسی اور اسلامی حکم کو مانتے ہیں۔ بلکہ یہ ‘الحاکم بامر اللہ’ نامی شخص کی عبادت کرتے ہیں اور اسے خدا مانتے ہیں، اس کے لیے خدائی صفات ثابت کرتے ہیں، قرآنِ کریم کی آیات کا غلط مفہوم بیان کرتے ہیں، اور اس کی من مانی تاویلیں کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے شدید ترین دشمنوں میں سے ہیں۔” ( مجموع الفتاوی، جلد 35، صفحہ 161) معلوم ہونا چاہیے کہ باطنیہ کی اسلام دشمن زندیق تین بڑی شاخیں شام میں سرگرم ہیں۔تین 3% اسمعیلی ہیں۔ تین3 % فی صد دروز ہیں۔اور 5% فی صد علوی نصیری ہیں۔ یہ سب مل کر دس10 % فی صد سے زیادہ ہیں۔لبنان اور شام کے دروز ، اسرائیلی فوج میں ملازم ہیں۔ عیسائیوں اور یہودیوں کے پرانے حلیف ہیں۔
لبنان کی پاریمنٹ کا اسپیکر دروز ہوتا ہے۔
شان میں جعفری اثنا عشری شیعہ بہت کم ہیں۔ ڈھائی کروڑ کی کل آبادی میں تقریبا 80 %فی صد سے کچھ کم سنی مسلمان ہیں جن کی اکثریت حنفی ہے۔ عیسائی دس 10% فی صد ہیں۔
اج 2025 میں مغرب چاہتا ہے کہ ان اقلیتوں کے ذریعے شام کو مصروف جنگ اور خانہ جنگی میں مبتلا رکھا جائے۔ اسرائیل کی توسیع کے عزائم کو قوت فراہم کی جائے۔ مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کیا جائے اور مسلم اکثریتی علاقوں میں کٹھ پتلی حکومتیں قائم کی جائیں۔
٭٭٭












