قارئین وطن!قاضی فائیز عیسیٰ خود ستائی کا ڈرامہ رچا کر رخصت ہوگیا،سنا ہے اپنے بزرگوں کی استخوان فروشی میں مصروف رہا چند چاپلوس قسم کے لوگ اور اسمبلی کے ملازمین کی بھر مار کے علاوہ کوئی حضرت کی کہانی سننے نہیں آیا حتیٰ کہ چھ وہ جج صاحبان جو اس کے ساتھ بینچوں پربیٹھتے تھے وہ بھی اس دن اس کے ساتھ نہ تھے کہ ان کے لئے اس کا بوجھ برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا لیکن اس شخص کو یہ نہیں پتا کہ اس نے ریاست پاکستان اور اس کے کروڑوں عوام کا کتنا نقصان کیا ہے جو اس کی چودہ نسلیں بھی پورا نہیں کر سکتی ہیں،رانا افتخار چودھری بابا رمضانی کے کزن نے جب فائیز عیسیٰ کو آوٹ آف ٹرن بلوچستان کا چیف جسٹس بنایا تو وکلا برادری بہت خوش ہوئی تھی کہ افتخاری نے ایک آنر آبیل جج چنا ہے چیف جج کے منصب کے لئے کیا پتا تھا کہ جوڈیشری کی آستینوں میں سانپ پل رہا ہے کسی شاعر نے خوب کہا ہے!
کہ ہزار سانپ رہ زندگی میں ملتے ہیں
خدا کرے کہ کوئی زیر آستیں نہ ملے
قاضی فائیز عیسیٰ پوری قوم کو ڈس گیا یہاں تک کہ عالم ارواح میں اپنے باپ کی نیک نامی کو بھی ڈس گیا لیکن مجھ کو افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی تک جج صاحبان منصور علی شاہ صاحب کے لئے سراپا احتجاج کیوں نہیں بنے، قارئین وطن !ایک طرف جج صاحبان کی خاموشی دوسری طرف وکلا برادری کی خاموشی بڑی معنی خیز ہے حامد خان اور علی احمد کرد اور دوسرے نامور وکیل جو کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ہم کسی طور پر منصور علی شاہ صاحب کے علاوہ چیف جسٹس کسی کو نہیں مانیں گے، وکلا کی خاموشی اس بات کی غمازی ہے کہ جیسے سب نے بدمعاشیوں کے ساتھ کمپرومائیز کر لیا ہے یا ان کے سہولت کاروں کے ساتھ۔26 ویں آئینی ترمیم نے جہاں ایک آپ رائیٹ جج کا چیف جسٹس بننے کا راستہ روکا ہے، دوسری طرف سپریم کورٹ کی ساکھ ایک سیشن جج سے بھی کم کر دی ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ جسٹس آفریدی سپریم کورٹ کے وقار کو بحال کرتے ہیں یا یہ جسٹس قیوم کا کردار ادا کرتے ہیں اللہ کرے کہ وہ انصاف کے ترازو کے پلڑے کی ساکھ قائم رکھیں اور عوام کے اعتماد کو بحال کریں کے ہمارے پاس صرف سپریم کورٹ ہی ہے جہاں عوام انصاف کے لئے دیکھتی ہے۔
قارئین وطن!ایک دوست نے مجھے میسنجر پر نواز شریف کی لنڈن آمد پر ایک کلپ بھیجا ہے جس میں ولایت میں آبا دکار پاکستانیوں نے اس عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے بنائے ایون فیلڈ کے سامنے مظاہرہ کیا چور چور نواز شریف چور ہے کا نعرہ ابلند کیا کہ دنیا کے ہر کونے میں اس کی آواز سنائی دی لیکن اگر شرم نہیں آئی تو اس خائین نواز شریف کو نہیں آئی – ایک بات جو اچھی ہوئی اس سارے شور شرابے میں کہ نہ نواز کو منزل ملی اور نہ ہی مردود قاضی عیسی کو ایک سر چھپانے کے لئے لنڈن پہنچا اور دوسرا بھگوڑا سپین میں عوام کے غیض و غضب سے بچنے کے لئیے لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ تمام وکلا برادری باہر نکلے اور جعلی فارم کی حکومت کے خلاف انقلاب برپا کرے ورنہ ان کی حیثیت ایک پرکاہ کی سی ہوگی بلکہ وکلا کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنے حقوق کے لئے باہر نکلنا چائیے اس ڈوبتے ہوئے پاکستان کو بچانے کے لئے سپریم کورٹ کی بحالی پاکستان کے وقار کی بحالی ہے ،قارئین وطن! آج ایک اور کلپ محمد علی بٹ صاحب نے حبیب جالب مرحوم کا بھیجا جس میں انکے ایک شعر کا مفہوم تھا!
کہ پنجاب سو رہا ہے اور پاکستان ڈوب رہا ہے ،مجھ کو شورش پاکستان سلمان کھوکھر صاحب بہت یاد آئے کہ جالب کے ہم رفیق ہونے کا ان کو حق ادا کرنا چاہئے اور امریکہ میں جالبی بلونگڑوں جن کو جالب کی عوام شاعری کا ذرا بھر شعور نہیں ہے باہر نکل کر کامریڈ رانا رمضان اور محمد علی بٹ صاحب کے ساتھ عوامی پلیٹ فارم بنائیں اور امریکہ میں آباد سوئے ہوئے پنجابیوں کو جگائیں جب تک خاص طور پر لاہور سویا رہے گا حکومت کا ہر پہلو گرتا نظر آئے گا شورش پاکستان آپ ایک وکیل بھی ہیں اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے آپ نے ملک مقسط ندیم صاحب کے ساتھ مل کر ایک امریکہ میں لا کی پریکٹس کرنے والے پاکستانیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور وطن کے آئینی بحرانوں پر خوب سیر حاصل بحث ہوا کرتی تھی آج پھر کمیونٹی آپ سے اپیل کرتی ہے کہ آگے بڑہیں اور پاکستان کی ٹوٹی عدلیہ پر پروگرام منعقد کریں میں دامے درمے سخنے آپ کے ساتھ کھڑا ہوں گا پاکستان زندہ باد –
٭٭٭