”اب انہیں ڈھونڈ چراغ رُخ زیبا لے کر”

0
9

مولانا احمد علی لاہوری(دیوبندی)اورمولانا دائود غزنوی (اہلحدیث)کی مسلکی اختلاف کے باوجود آپس میں گہری دوستی تھی۔ ایک مرتبہ مولانا غزنوی نے حضرت لاہوری کو پیغام بھجوایاکہ آج نماز مغرب آپ کی مسجد میں ادا کرنے کا ارادہ ہے،اسی بہانے آپ سے ملاقات بھی ہو جائے گی ، مولانا غزنوی نے مولانا لاہور کی مسجد میں جانے سے قبل اپنے ساتھ جانے والے معتقین کو سمجھایا کہ ہم چونکہ نماز میں بالجبر(بلند آواز میں آمین)کرتے ہیں اور مولانا لاہوری آمین بالسر(آہستہ آواز میں آمین)کے قائل ہیں ،ہم ان کی مسجد میں جا کر بلند آواز سے آمین کہیں اور باقی نمازی آہستہ آواز میں آمین کہیں تو اچھا نہیں لگے گا،بہتریہی ہے کہ جب مولانا لاہوری کی مسجد میں نماز پڑھیںتو ہم بھی باقی نمازیوں کی طرح آہستہ آواز سے آمین کہیں اور رفع الدین بھی نہ کریں کیونکہ یہ اعمال نہ کرنے سے نماز ہو جائے گی اور کوئی گناہ بھی نہیں ملے گا ،دوسری جانب مولانا لاہوری نے سوچا کہ مولانا غزنوی چونکہ آمین بالجہر کے قائل ہیں اور جب بھری مسجد میں اکیلے آمین کہیں گے تو سبکی ہوگی اور مہمان کیلئے یہ بات مناسب نہیں چنانچہ انھوں نے اپنے طلبا سے کہا کہ آج ہمارے ہاں مسلک اہل حدیث کے ایک بہت بڑے عالم دین آ رہے ہیں ، وہ چونکہ اونچی آواز میں آمین کہنے کے قائل ہیں لہذا آج تم سب آمین اونچی آواز میں کہنا اور کچھ طالب علموں کو بلا کر یہ بھی سمجھادیا کہ آپ لوگ کچھ فاصلے کے ساتھ مولانا غزنوی کے اردگرد کھڑے ہوجانا ،تاکہ جب وہ نماز میں بلند آواز سے آمین کہیں تو آپ لوگ بھی ان کے ساتھ کہنا ۔اس طرح انہیںآمین بالجہر کرتے ہوئے سبکی نہیں ہوگی اور بلند آواز میں آمین کہنے سے آپ لوگوں کو کوئی گناہ بھی نہیں ملے گا۔جب جماعت کی نماز کھڑی ہوئی تو دونوں نے اپنے منصوبے پر عمل کیا ، جن طلبا نے آمین بالجہر کی ، ان کو چونکہ بلند آواز میں آمین کہنے کا تجربہ نہیں تھا ، اس لیے وہ کچھ زیادہ بلند آواز میں آمین کہہ گئے ، اب ایک طرف مولانا غزنوی اور ان کے شاگردوں نے آمین آہستہ آواز میں کہی جبکہ مولانا لاہوری کے شاگردوں نے بلند آواز میں یعنی دونوں نے ایک دوسرے کے احترام میں اپنے مسلک کے بجائے مخالف مسلک پر عمل کیا اور ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی ، نماز کے بعد جب معاملہ کھل کر سامنے آیا تو مخالف مسلک کے احترام کا یہ عالم دیکھ کر سب حیران رہ گئے ، (حضرت لاہوری کے حیرت انگیز واقعات )مولانا سید داؤد غزنوی فرماتے ہیں کہ مفتی کفایت اللّٰہ صاحب مرحوم کے بعد جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا حسین احمد مدنی (شیخ الحدیث، دارالعلوم دیوبند) بنے اور نائب صدر کا عہدہ مجھے تفویض ہوا۔ یہ معلوم ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی صاحب مسلک کے بارے میں نہایت سخت گیر تھے، مگر نماز کے وقت امامت کے لیے مجھے آگے کر دیتے اور میری اقتدا میں نماز پڑھتے۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری تمام عمر عیدین کی نماز مولانا داؤد غزنوی مرحوم کی اقتدا میں پڑھتے رہے۔مولانا محمد حسین ہزاروی جو کہ مفتی محمد حسن (بانی جامعہ اشرفیہ لاہور) کے دوست اور ہم وطن تھے، پہلے حنفی تھے، لیکن مدرسہ غزنویہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اہل حدیث ہوگئے اور وہاں مدرس بھی مقرر ہوئے۔ یہ اس کے بعد بھی مفتی محمد حسن کے ساتھ مولانا اشرف علی تھانوی کو ملنے تھانہ بھون جایا کرتے تھے۔ مفتی حسن حضرت تھانوی سے بیعت تھے۔ ایک مرتبہ مولانا تھانوی نے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ پیچھے نماز میں مولانا ہزاروی کی آمین کی اونچی آواز نہیں آتی؟ مفتی محمد حسن نے کہا کہ شاید آپ کے احترام میں آہستہ آمین کہتے ہیں تو مولانا تھانوی نے کہا کہ انہیں کہیں کہ مجھ پر اس سنت کے ترک کا بوجھ نہ ڈالیں اور انہیں کہیں کہ یہاں اونچی آواز سے آمین کہیں، کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔
(بزم ارجمنداں، ص303
آئے عشاق، گئے وعد فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
پیارے بھائی حضرت مولانا ضیا چترالی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی وال سے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here