نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل !!!

0
16

داستانِ حرم میں، ملتِ ابراہیمی کی سب سے بڑی شناخت یعنی بیت اللہ کا حج، تحریروں سے تو ہمیشہ شعائر اور مناسک کا ایک ایسا مجموعہ لگتا رہا کہ جس کی مشق اور تفصیلات یاد کرنے کیلئے اچھے خاصے وقت اور ماہر معلم کا موجود ہونا ضروری ہے لیکن آج وہ سب صرف کتابوں کی باتیں ہی نکلیں۔ عملی طور پر جب ہم اللہ کے مہمان بن کر اسکے حضور ان جگہوں پر پہنچے جہاں مناسکِ حج ادا کرنے ہوتے ہیں تو صورتحال ہی بالکل مختلف نظر آئی۔ پتہ چلا کہ حج بیت اللہ بھی، دراصل باقی اسلامی عبادات کی طرح عشقِ الہی میں ڈوب جانے کا نام ہی ہے۔منیٰ اور عرفات سے ہوتے ہوئے ہم سب مزدلفہ پہنچے تو رات گہری ہو چکی تھی۔ بس سے اتر کر ایک خالی جگہ ڈیرہ ڈالا، مغرب اور عشا کی نمازیں پڑھیں۔ ہم امریکہ سے ہی، کچھ فولڈایبل کرسیوں کا اہتمام کر کے ساتھ لے گئے تھے۔ اسی کرسی پر بیٹھ کر چند گھنٹے آرام کے مل گئے۔ اس دوران جمعرات کیلئے کنکریوں کے پیکٹس بھی بنے۔ کھلے آسمان کے نیچے لاکھوں فرزندگانِ توحید اپنے اپنے انداز سے وہی عمل دُہرا رہے تھے جو ہم نے کیا۔ نمازِ فجر ادا کرنے کے کچھ دیر بعد ہم ایک مرتبہ پھر بس میں سوار ہوگئے۔ میرے خیال میں خاصے وقت تک بس کی رفتار صفر رہی۔آج کا دن سیدِنا ابراہیم علیہ السلام کی عظمت و بزرگی کی یاد تازہ کرنے کا دن ہے۔ اقبال نے ایک شعر میں ہی انکی ایسی تعریف کردی ہے کہ مزید لکھنے کی کوئی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
آج کے نمرود سے جب تصادم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو ہم اکثر مفاہمت کا راستہ اپنا کر ایسی تاویلیں پیش کرتے ہیں کہ غزہ کے لاکھوں بچوں کے تڑپتے لاشے بھی عقلی دلیلوں کے سامنے کچھ اتنا غلط نظر نہیں آتے کہ ہم مزاحمت کرتے ہوئے آتش نمرود کو گل و گلزار کر دیں۔سیدنا ابراہیم خلیل اللہ، سارے الہامی مذاہب کے ایسے بزرگ ہیں جن کی عزت و احترام آج بھی ہر مذہبی کمیونٹی میں، بدرجہ اتم موجود ہے۔ اپنا آبائی وطن چھوڑ کر مکہ کی بے آب و گیاہ وادی کو آباد کیا۔ بڑھاپے کی اولاد جب بھاگنے دوڑنے کے قابل ہوئی تو وحی الٰہی آئی کہ قربانی چاہئے۔ اس مرحلے پر عشق و عزیمت کی اس داستان نے ایسا موڑ لیا کہ رہتی انسانیت تک، ابراہیم و اسماعیل زندہ و جاوید ہو گئے۔ پہلے تو شیطان کے ہزاروں وسوسوں کے باوجود، حضرت ابراہیم نے اپنے خواب کو اللہ کا حکم ہی سمجھا۔ کوئی تاویل قبول نہیں کی۔ دوسری جانب اقبال کے اس شعر سے بھی سب کچھ واضح ہے۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
یہ انقلابی راستے، آج ایسے معدوم ہو چکے ہیں کہ بڑی بڑی اسلامی پارٹیاں بھی طاغوت کے آگے لیٹ تو سکتی ہیں لیکن حق بات کہنے سے کتراتی رہتی ہیں۔ دوسری جانب اللہ کی ذات بھی کتنی بے نیاز ہے کہ اس نے تین جمارات کی صدیوں پہلے نشاندہی کرکے، دینِ ابراہیمی کے پیروکاروں کو حکم دیا کہ جب تک تم رمی نہیں کر لو گے، نہ ہی قربانی کرسکتے ہو اور نہ ہی احرام اتار سکتے ہو۔ ان شیطانوں کو جنہوں نے حضرت ابراہیم کی راہ کاٹتے کی مسلسل کوششیں کیں، آج تک کنکریوں کے ایک انبار کا سامنا رہتا ہے۔ سنتِ ابراہیمی کے اس عمل کو اصولا تو ہماری زندگی کے باقی معاملات پر بھی حاوی ہونا چاہئے لیکن ہم بڑی چالاکی سے ان تین شیطانوں کو سات سات کنکریاں مارنے تک ہی محدود رہتے ہیں اور باقی معاملات میں انہی شیطانوں کے ساتھ مفاہمت کرتے کرتے ساری عمر گزار دیتے ہیں۔سیدنا ابراہیم و اسماعیل نے تو کچھ اس طرح انسانیت کو اس کے معراج تک پہنچا دیا کہ رہتی دنیا تک حجِ بیت اللہ کے ذریعے ان کی قربانی کا تذکرہ رہے گا۔ اقبال کے اس داستان حرم کے بارے میں یہ دو اشعار خاصے متاثر کن ہیں۔
عذاب دانش حاضر سے با خبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
میری زندگی کی یہ پہلی عید الاضحی ہے، جس میں نمازِ عید پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ رمی کرنے کے بعد گروپ منتظمین کو پیغام بھیجا۔ انہوں نے اپنی ذبیحہ ٹیم کے ذریعے مقرر شدہ سلاٹر ہاس پر ہماری طرف سے قربانیاں کیں۔ ہمیں اطلاع دی کہ آپ کی جانب سے قربانی کردی گئی ہے۔ ہوٹل سے چند منٹ کے فاصلے پر ہی ایک ہئیر ڈریسر شاپ پر پہنچے۔ ہماری خواہش کے عین مطابق انہوں نے ہماری ٹنڈیں کرکے ہمارے حج کی تکمیل پر گو یا اپنی مہر تصدیق ثبت کردی۔ ہوٹل میں واپس آکر نہائے دھوئے اور احرام اتارا۔ نارمل لباس میں اپنی تازہ تازہ حجامتوں کو ابھی نارملائیز کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور ٹوپیوں پر بحث ہو رہی تھی کہ خواتین ہمارے کمرے میں تشریف لے آئیں۔ پہلے تو فوری دروازہ بند کرکے واپس جانے لگیں کیونکہ نئی نئی ٹنڈ کے ساتھ ہم انہیں بالکل اجنبی لگے۔ پھر جب انہیں حالات کا اندازہ ہوا تو ہم نے بھی ان کو خوب تنگ کیا۔سیدنا ابراہیم کی اس دعا کے ساتھ آپ سے اجازت تاکہ طوافِ زیار کیلئے جایا جاسکے اوریاد کیجئے) جب ابراہیم (علیہ السلام ) نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر(مکہ)کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس (بات)سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here