ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ!! !

0
14
کامل احمر

امریکہ کے صدور پر قاتلانہ حملوں کی تاریخ جاری ہے اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے جاری رہے گی اس کی سب سے بڑی وجہ مضبوط ترینGVN LOBBYYہے ہمارے وقت میں سب سے بڑا واقعہ۔ صدر جان ایف کینڈی پر ڈیلاس ٹیکساس میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور وہ جان لیوا ثابت ہوا۔ اس کے بعد ان کے بھائی رابرٹ کینڈی پر حملہ ہوا جو صدارت کے امیدوار تھے وہ بھی جاں بحق ہوئے۔ اس کے بعد صدر ریگن پر بہت قریب سے قاتلانہ حملہ ہوا لیکن وہ بچ گئے اور انکے سیکرٹری اپاہیج ہوگئے اور اب13جولائی کے دن پر پنسلوانیا کے علاقہ بٹلر میں جب صدارت کے دوسری بار امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ریلی سے خطاب کر رہے تھے ایک بیس سالہ نوجوان تھامس میتھیو کروک کے ایک مکان کی چھت پر بیٹھ کر رائفل سے ان کو نشانہ بنایا۔ اور گولی کنپٹی کو چھوتی ہوئی ایک دوسرے شخص کو لگی جس سے اس کی موت واقع ہوگئی اور دوسرے شخص کو شدید زخمی کر گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ بڑی پھرتی سے نیچے ہوگئے ا ور فوراً ہیFBIنے اُس نوجوان کو شوٹ کردیا اور اس کے ساتھ ثبوت بھی ختم ہوگئے آج کی تشخیص سے معلوم ہوا یہ نوجوان ڈیموکریٹک تھا اور اس نے صدر بائیڈین کے الیکشن فنڈ میں15ڈالر بھی دیئے تھے۔ ساتھ ہی ہم امریکی صدور پر قاتلانہ حملوں کی تاریخ بتاتے چلیں۔ سب سے پہلے1835میں صدر اینڈ ریوجیکسن پر حملہ ہوا تھا اور وہ جانبر نہ ہوسکے۔ ابراہم لنکن کو اپریل1865میں حملہ کیا گیا اور وہ بھی بچ نہ سکے۔1881میں جیمز گار فیلڈ پر حملہ کیا گیا اور وہ بھی بچ نہ سکے۔1901میں ولیم ھیکنلی پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ بھی بچ نہ سکے۔1912میں صدر تھیوڈرروزویلٹ خوش قسمت تھے کہ انکی جیب میں میٹل کا گلاس کور تھا اور گولی اُسے پار نہ کرسکی۔ فرینکلن روز ویلٹ1933میں قاتلانہ حملے سے بچے وہ تقریر کرکے ہی چکے تھے کہ حملہ آور نے ان کو نشانہ بنا کر5گولیاں ماریں جس سے وہ بچ گئے۔ اسی طرح امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین پر بھی قریب سے قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور وہ بچ گئے۔ تاریخ کی روشنی میں یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ قاتلانہ حملہ کرنے والے عام اشخاص تھے لیکن مشترکہ بات یہ تھی کہ ان کے پاس پستول، اور حالیہ قاتلانہ حملے میں رائیفل استعمال کیا گیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی خوش قسمتی تھی کہ وہ آدم انچ کم سے فاصلے سے بچے بچانے والا اللہ ہے۔ وہ گولی ان کے لئے نہیں تھی۔ زیادہ تر حملے میں حملہ آور کا ارادہ معلوم نہیں ہوا۔ اور یہ بھی مشہور ہے کہ کہ ان حملہ آوروں کے پیچھے کوئی نہ کوئی ہاتھ ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کی پراسرار شخصیت ہے جو متنازعہ رہی ہے اور رہے گی اگر وہ دوبارہ صدر بنے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ٹرمپ ارادوں کے پکےّ ثابت ہوئے ہیں۔ گولی لگنے کے فوراً بعد وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور مٹھی بنا بنا کر دشمن پر چیخ رہے تھے ان کے لب بتا رہے تھے کہ وہ شدید غصہ میں ہیں۔ ڈرے ہوئے قطعی نہیں، حوصلے بلند ہیں اور نہایت سخت سست الفاظ میں مخاطب ہیں جو سنائی نہیں دیئے لیکن دیکھنے والے جان سکتے ہیں کل سے اب تک اور کئی روز تک ان کی جفاکشی ہمت اور حوصلے کی داستان جاری رہے گی۔ اور ان باتوں کے پس منظر میں اسرائیل کی خرمتیاں جاری رہینگی فلسطینیوں پر، ممکن ہے کہ ان باتوں پر دھیان ہٹانے کے لئے ایسا کچھ کیا گیا ہے یہ صرف اللہ جانتا ہے۔ یہاں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابیوں پر نظر ڈالتے چلیں کہ انہوں نے اپنا کامیابی کا سفر1982میں شروع کیا تھا جب ملک کی اکانامی خاص کر نیویارک بنک کرپٹ ہو رہا تھا۔ اور ریل اسٹیٹ تباہ ہوچکی تھی۔ ہوٹل بند ہو رہے تھے ان ہی میں گرانڈ سینٹرل اسٹیشن سے ملی کموڈور ہوٹل کی پرانی بلڈنگ تھی جیسے 1976میں بند کر دیا گیا تھا تب جب کے میئر کوچ نے جو ٹرمپ کے والد کے دوست تھے انہیں کموڈور لینے کی آخر دی صرف ایک ڈالر کے عیوض۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے والد سے علیحدہ اپنا ریل اسٹیٹ بزنس جما رہے تھے ان کے پاس باپ کے دیئے39ملین ڈالر تھے۔ اور انہوں نے میئر کوچ کی یہ پیشکش قبول کرلی ساتھ ہی سٹی نیویارک نے انہیں۔ بلڈنگ کی مرمت اور ہوٹل کو نیا کرنے کی رقم بھی فراہم کی۔ وہ ہمیشہ سے ہی بے باک اور منہ پھٹ رہے ہیں یہ انکا شغل کہیں یا جرب زبانی لیکن ارادوں کے مضبوط ہیں۔جب انہوں نے صدر بننے کا سوچا تو امریکی عوام نے مذاق سمجھا لیکن سکتے ہیں آگئے جب وہ ریپبلکن کے امیدوار بنے اور صدر بن گئے۔
صدر بننے میں انہیں جو مدد ملی انکا تجربہ طرح طرح کے لوگوں سے ملاقات اور کئی بزنس بنے۔ وہDEALکرنا جانتے تھے۔ اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ قانون کی کمزوریوں سے کیسے کھیلا جاسکتا ہے۔ جو جاری ہے کہ اتنے بہت الزامات جو کورٹ میں چل رہے ہیں مقابلہ کر رہے ہیں۔ بہت سے الزامات نہایت بے معنی اور بغض ماویہ کے پس منظر میں ہیں۔ ایک افریکن امریکن لیڈی پراسیکیوٹران کے کیس کو جیتنا چاہتی ہے۔ اورHVSH MONEY کے الزام میں ایک بے تکا کیس بنا چکی ہے۔ کہ ٹرمپ نے اپنی پراپرٹی کو بہت زیادہ پیسوں میں بیچ کر منافع خوری کی۔ یہ ایسا ہے جیسے آپ نے کوئی مکان آج سے بیس سال پہلے تین لاکھ میں لیا ہو اور آج مارکیٹ میں اس کی آفر نو لاکھ ہو۔ تو یہ کسی طور پر جرم نہیں۔ ٹرمپ کو یہ بات بھی معلوم ہے کہ ان باتوں سے کس طرح نبٹا جائے اچھے وکیلوں کی ایک فوج ہے وہ کئی بار بنک کریسی بھی کرا چکے ہیں اپنے بزنس میں امریکی عوام سمجھ رہے تھے کہ وہ صدارت کا الیکشن نہیں لڑ سکینگے۔ لیکن اس وقت انکی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس قاتلانہ حملے کے بعد۔ ہم سمجھتے ہیں، نہ صرف ٹرمپ کا ستارہ عروج پر ہے بلکہ امریکہ کی گرتی معیشت اور بائیڈین صدر کی بے پناہ نااہلی میں انکی کامیابی کا راز ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ جملہ خوب ہے۔ ”امریکہ بائیڈین کی مانند کمزور ہو چکا ہے” اور نیلے(ڈیموکریٹک) رنگ کے شہروں سے صدر بائیڈین کی مقبولیت کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ صدر بائیڈین کے لئے کچھ لکھنا اب بے کار ہے کہ پچھلے ہفتہ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس اور تقریر میں اپنی خستہ دماغی حالت کھل کر ظاہر کی جب اپنی وائس پریزیڈنٹ، کمالاہیرس کی جگہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا نام استعمال کر گئے۔ اس طرح یوکرین کے صدر کا نام بھول گئے اس کی جگہ پیوٹن کہہ گئے اور ہّکا بّکا لوگوں کو دیکھنے لگے۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی سیاست کے علاوہ بڑے بڑے بزنس سے واقف ہیں کہ حال ہی میںTESLAکار کے مالک کو ایلن مسک کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا کہ وہ ان کے الیکشن میں مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ جو صدر بائیڈین کے مالی امداد کے بنک بیلنس سے کہیں زیادہ ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہر کارپوریشن اور ہر مینوفیکچر کمپنیوں کے فراڈ کا بھی علم ہے لہذا سب اُن سے ڈرے ہوئے ہیں پچھلے دور میں ٹرمپ نے دنیا کے ہر بڑے چھوٹے، دشمن ملک سے اپنے تعلقات بنائے ہیں۔جس میں نارتھ کوریا اور روس کے علاوہ چین بھی شامل ہے اور وہ خود جاکر تبادلہ خیال کرتے ہیں وہ کسی سیاست دان یا میڈیا کے زیر اثر نہیں نہ ہی وہ انہیں گھاس ڈالتے ہیں۔ پہلے صدر ہیں جنہوں نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو برابر سمجھتے ہوئے عزت دی یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ وہ عمران خان کو بھی اپنے مودبانہ رویئے سے شیشے میں اتار چکے ہیں۔
اس وقت سب سے بڑی مخالفت ہتھیار(جنگی) بنانے والوں کے دلالوںLOBBYSTکی ہے کہ ان کے پیٹ پر لات پڑے گی ان میں زیادہ تر ریٹارڈ جنرلز ہیں جو ٹرمپ کے دور میں ٹرمپ کی شدید مخالفت کر چکے ہیں۔ ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کو دو بُرے سیاستدانوں کی چوائس دی جائے تو یقیناً آپ کم برے کو ہی چنینگے۔ اس امریکی عوام کی مالی حالت جو قرضوں سے چل رہی ہے اور بھی خستہ ہوگی اگر امریکی عوام نے صدر بائیڈین جن کی صحت بالکل ٹھیک نہیں دماغی اور جسمانی کچھ نہ کرپائینگے اور ان سے چمٹے نتھو فجّو معیشت کو زیرو کردینگے!!۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here