پی ڈی ایم نے صرف کھویا

0
62
رمضان رانا
رمضان رانا

بلا شبہ پی ڈی ایم میں ملک بھر کی نظریاتی، مذہبی، قوم پرست، دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں شامل ہیں جس میں اکثر جماعتیں ماضی کی ایک تاریخ رکھتی ہیں۔ جنہوں نے آزادی ہند سے لے کر آج تک آزادی اور جمہوریت کی بحالی کیلئے بے حد جدوجہد کی ہے۔ چاہے وہ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندیوں کے بعد اے این پی، بی این پی جیسی پارٹیاں ہوں یا پھر آزادی ہند کی جمعیت الہند کی کوکھ سے جنم لینے والی جمعیت اسلام یا پھر جمعیت علماء پاکستان یا پھر بھٹو شہید اور بے نظیر شہید کی پی پی پی ہو یا پھر جرنیلوں کے ساتھ ٹکراؤ لینے والی مسلم لیگ نون ہو جن کے اتحاد نے پاکستان میں جمہوریت کو بحال کرنے اور ملک کو ایک مضبوط فیڈریشن کا عندیہ دیا تھا۔ جنہوں نے اپریل 2022ء میں ڈوبتے ہوئے پاکستان کو بچانے کی خاطر عمران خان سے عدم اعتماد کے استعمال سے اقتدار چھینا جو ملک کو عنقریب دیوالیا پن میں مبتلا کرکے تباہی کی طرف گامزن تھا مگر پی ڈی ایم اور دوسری اتحادی جماعتوں نے اقتدار لے کر اپنی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے کہ اگر یہ اتحادی پارٹیاں آج اقتدار حاصل کرتیں تو عمران خان سمیت پوری جرنیلوں کی سازشی ٹولہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جاتا جنہوں نے پاکستان کو تجربہ گاہ بنا رکھا ہے۔ جو آئے دن کبھی الطاف حسین اور کبھی عمران خان پیدا کرتے ہیں۔ جنہوں نے ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہے جس کی واپسی مشکل ہو چکی ہے۔ جرنیلوں نے وہ دس سالہ منصوبہ بنایا تھا کہ وہ جبر کے ذریعے 2018ء کی طرح انتخابات جتوا کر ملک پر دس سالہ آمریت نافذ کرینگے تاکہ ملک سے جمہوری قوتوں کا خاتمہ ہو جائے جس میں وہ ناکام ہوئے ہیںلیکن پاکستان کو ایسا تباہ و برباد کر دیا ہے کہ اب نہ جانے کون اور کیسے بچا پائے گا۔ جو ہمہ وقت مشکلات میں مبتلا ہے جس کے باوجود پاکستان میں سازشیں جاری ہیں جس کا مظاہرہ 9مئی کو ہوا کہ پہلی مرتبہ عمران خان کے پیروکاروں نے فوج پر حملہ کر دیا جس کی مثال کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں ملتی ہے۔ جس سے سابقہ فوجی خاندانوں، ججوں کی فیملیاں، اور بڑی ایلیٹ کلاس کے امراء نے فوجی بیرکوں، چھانیوں اور اہم تنصیباتوں پر حملے کئے جن کے بارے میں یہ بحث جاری ہے کہ ان پر مقدمات فوجی یا سول عدالتوں میں چلنے چاہئیں یا نہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ حملہ کسی بھی ملک میں قابل قبول نہیں ہے ایسے موقع پر سوالات پیدا ہو رہے ہیں کہ اگر صرف ایک مقدمے میں عمران خان کی سزا دینے والے جج دلاور خان کا جو حشر ہوا ہے کہ جن کی لندن میں عمران کے ٹولے نے حملہ کیا یا پھر پاکستان میں جج کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ جس میں جج بندیال بھی اپنے جج کے فیصلے کو بنا اپیل قبول نہیں کر رہا ہے جس پاداش میں جج دلاور کو آج او ایس ڈی بنا دیا ، جس سے ثابت ہو چکا ہے کہ عمران خان کیخلاف شاید کوئی مقدمہ نہیں چلا پائے گا چاہے وہ توشہ خانہ کی چوری، فارن فنڈنگ کیس، 190 ملین پونڈز جرمانہ، 9مئی سازش، بیٹی کی پدریت، عدت میں مدت، بی آر ٹی میں مالج جبہ، بلین ٹری جیسے بڑے بڑے مفروضات میں عمران خان کا کچھ نہیں بگاڑہ جا سکتا ہے جس طرح اسلام آباد ہائی کورٹ نے سزا یافتہ مجرم کی سزا معطلی اور رہائی کی ہے۔
بہرحال پاکستان کو آج شدید اتحاد کی ضرورت ہے جس کے بغیر استحکام ناممکن ہے جس میں سیاستدانوں ، ججوں، جرنیلوں، اہلکاروں، جاگیرداروں، کسانوں اور مزدوروں کو متحد ہو کر پاکستان کو بچانا ہو گا۔ جو اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کریں جس کیلئے از سرنو معاہدہ بقاء کا حلف اٹھانا پڑے گا کہ ہر شخص اور ادارہ اپنی اپنی حدود میں رہ کر ملک کی خدمت کرے ورنہ پاکستان کا وہی حشر ہو گا جو شاید ہمارے مقدر میں لکھا جا چکا ہے جس کا اعتراف ہو رہا ہے کہ اتنا بڑا ملک جو نیوکلیئر پاور کے باوجود خطرے میں جس کا ذمہ دار وہ طبقہ ہے جنہوں نے ملکی قانون کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here