پاک ، افغان سیزفائر معاہدہ

0
43

پاک ، افغان
سیزفائر معاہدہ

پاکستان کو آج کل ایک نہیں بلکہ 2-2 سرحدوں پر جنگی محاذوں کا سامنا ہے ، بھارت کے ساتھ جنگ تھمی ہی تھی کہ افغان سرحد پر طالبان کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنا پڑ گئے ، پاکستان نے زمینی اور فضائی کارروائی کے دوران دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس کے بعد افغان فورسز کی جانب سے شدید دراندازی سامنے آئی ، جنگ کے بعدقطر اور ترکیہ کی ثالثی میں دونوں ممالک کے درمیان دوحہ میں امن معاہدہ طے پا گیا ہے۔سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان فوری جنگ بندی کے معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔اجلاس کے بعد جاری بیان کے مطابق کابینہ نے اس بات کی توثیق کی ہے کہ سعودی عرب علاقائی اور عالمی سطح پر امن و سلامتی کے قیام کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان رواں ہفتے متعدد سرحدی جھڑپوں کے باعث حالات کشیدہ رہے اور دونوں اطراف درجنوں افراد جان سے گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔نو اکتوبر کو کابل میں دھماکوں کے بعد افغان طالبان نے پاکستانی سرحدوں پر حملے کیے جن کا پاکستان نے مؤثر جواب دیا تھا۔ ان جھڑپوں میں دونوں طرف انسانی جانوں کے علاوہ انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا۔اس سب کے بعد 15 اکتوبر کی شام دونوں ممالک کے درمیان 48 گھنٹے کے سیزفائر کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں 17 اکتوبر کی شام مزید 48 گھنٹے تک توسیع کر دی گئی،بعد میں دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کے وفود نے ہفتے کو دوحہ میں مذاکرات کیے، جن میں قطر اور ترکی نے ثالثی کے فرائض انجام دیئے،پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان سے آ کر پاکستان میں فوج اور شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے متعدد دہشت گرد حملوں میں افغان شہری ملوث پائے گئے ہیں۔ لیکن طالبان حکومت پاکستان کے ان دعووں کو مسترد کرتے ہوئے دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتی رہی ہے۔افغانستان پاکستان پر حالیہ برسوں کے دوران سرحدی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کرتا رہا ہے۔ پاکستان بعض کارروائیوں کی تصدیق جبکہ بعض کی تردید کرتا آیا ہے۔رواں ماہ آٹھ اکتوبر کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بیان میں بتایا کہ سات اور آٹھ اکتوبر کی درمیانی شب اورکزئی میں ہونے والے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران 19 شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ اس آپریشن میں فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل اور ایک میجر سمیت 11 اہلکار بھی مارے گئے تھے۔15 اکتوبر کو افغان طالبان کے ترجمان نے الزام لگایا کہ پاکستانی فورسز نے قندھار کے سپین بولدک ضلع میں افغانستان پر ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے حملے شروع کیے، جس کے نتیجے میں 12 سے زائد عام شہری ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔پاکستان کا موقف رہا ہے کہ اس نے افغانستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ مسلح تصادم ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی ایک ہفتے سے زیادہ دورانیے کے دورے پر انڈیا میں موجود تھے۔ پاکستان میں کچھ حلقوں کا یہ موقف ہے کہ افغان حکومت بھارت کی ایما پر پاکستان سے دشمنی مول لے رہی ہے جس کے تناظر میں بھارتی سپانسرڈ دہشتگردوں کو پاکستان میں کارروائیوں کے لیے بھیجا جا رہا ہے ، افغان وزیر خارجہ کے دورہ بھارت اور روس کو بھی پاکستان مخالف کارروائیوں کی کڑی کے طور پر دیکھا گیا ہے، افغان حکومت نے پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر بھارت کی گود میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ اس کے مستقبل کو دائو پر لگا سکتا ہے ، اب بھارت نے دوبارہ سے افغانستان میں اپنا سفارتخانہ کھول لیا ہے جس کے بعد پرانا گٹھ جوڑ ایک مرتبہ پھر سے دوبارہ نمایاں ہونے لگا ہے جس پر پاکستان میں کافی تشویش پائی جاتی ہے، افغانستان اور بھارت کے درمیان بڑھتے گٹھ جوڑ سے پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں میں دوبارہ سے اضافہ ہوا ہے ،جس کے متعلق پاک فوج کی جانب سے نہ صرف شدید خدشات کا اظہار کیا گیا بلکہ دہشتگرد کارروائیوں کے بڑھنے پر سخت اقدامات کی دھمکی بھی دی گئی ہے ، اب دیکھنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر معاہدہ کتنی مدت تک قائم رہتا ہے اور اس میں بھارت کا کیا کردار سامنے آتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here