آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ہم پچھتر سال سے آزاد ہو کر بھی غلامی کی زنجیریں اور بے بسی کا طوق گردن میں ڈالے ہیں۔ ہر ادارہ بے لگام۔ ہر شخص بدزبان۔ ہر رہنما ظالم ۔ عوام بے حال۔ بے یارومددگار۔ رکھوالے اور مخافظ تجوریاں بھرنے پر معمور۔سیاسی اشرافیہ اور جرنیل لوٹ مار میں مشغول۔ عوام بدحال ۔ بے زبان۔ اور پریشان۔ جرنیل اور اسٹبلشمنٹ اپنے غیر ملکی آقاں کی غلامی کا تاج سجائے عوام پر مہنگائی اور ظلم و سفاکی کے پہاڑ توڑتے ہوئے بے شرم اور بے غیرتی کی آخری حدوں سے بھی متجاوز۔ نہ کوئی پرسان حال۔ اور نہ کہیں شنوائی۔ مخافظ اور چور سب ایک۔ تاجر من مانی قیمتیں کا بم گراتے ہوئے۔ بجلی، گیس اور ضروریات زندگی کی اشیا عوام کی پہنچ سے دور۔ ظلم کی انتہا ۔ آزادی کی نعمت کو درندوں نے گہنا دیا۔ گزشتہ ستر سال سے جرنیلوں کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی سے ادارے کمزور۔تھانے اور عدالتیں رنڈی خانے۔ فاشسٹ درندے حکمران۔کیا یہ تھا قائد کا خواب۔ عوام بعد میں رونے سے پہلے ضرور سوچیں آج تک جن کو منتحب کرکے اسمبلیوں اور مسندوں پر بھٹکتے ہیں انہوں نے کبھی عوام کو ریلیف دیا ۔ انصاف دیا۔ رحم کیا۔ ؟ بالکل نہیں۔ تو پھر بار بار انہی درندوں اور ڈاکوں کو کیوں منتحب کرتے ہیں۔ ایک بار عوام صاف ستھرے اور دیانتدار لوگوں کو منتحب کرئے تاکہ پاکستان کی ڈائریکشن سلام اقبال اور قائداعظم کے خوابوں کی تربت ثابت ہو۔ قوم جماعت اسلامی کو منتحب کرئے۔ انشا یہ ان درندوں، سفاکوں اور بے رحم بھیڑیوں سے ایک ایک پائی کا حساب لینگے۔ چار جولائی امریکہ کا یوم آزادیٔ تھا۔ پورے امریکہ میں جشن آزادی کو انتہائی شان و شوکت سے منایا گیا ۔ امریکہ کے کہ ہر چھوٹے بڑے پارک ،چوراہوں اور ہر کائونٹی اور ٹائون میں فائر ورک کیا گیا۔ جس میں لوکل آفیشلز ،محکمہ تعلیم،پارک ڈیپارٹمنٹ، پولیس ڈیپارٹمنٹ، بورپریذڈنٹ آفس ،کمئونٹی بورڈز، کلرجیز، چیپلین، سینٹرز، کونسل ممبرز، اسمبلی ممبرز ، کانگرس ممبرز۔ لوکل کمیونٹیز اور آرگنائزیشنز بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ گلی محلوں کی سطح پر ہر چھوٹے بڑے بزنس اونرز اور باشندے فائر ورکس میں حصہ لیکر اپنے ملک سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایفرو امریکنز یعنی (کالے) اسکی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ھے کہ کس چیز کی آزادی؟۔
کالوں سے تفریق کی آزادی۔ انسانی حقوق کی پامالی کی آزادی ۔ظلم و جبر اورslavery کا جواب کون دے گا۔ جو دو صدیاں کالوں پر جبرا مسلط رہئ۔وائٹ اور ریڈ نک گورے کالوں اور مینارٹی سے نفرت رکھتے ہیں۔ لیکن جوڈیشری سسٹم مضبوط ہونے کی وجہ اور جرم کی سزاں کی وجہ سے آج کلر کمئونٹی ،آزادانہ اور تقریبا مساویانہ حقوق رکھتی ہے۔ ادارے آزاد ہیں اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ انکی Accountably کا طریقہ کار انتہائی مظبوط اوراطمنان بخش ہے۔ ھمیں چوہتر سال پہلے آزادی کی نعمت لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی ۔ جسے ہمارے جرنیلوں نے اپنے مفادات کی خاطر محکومی میں بدل دیا۔قرضوں نیپوری قوم کو محکوم اور گروی کر رکھا ہے۔ یہ قرضے جرنیلوں اور سیاسی بدمعاشیہ کی کرپشن پر صرف ہوئے۔بیرون ملک جائدادوں اور فلیٹس کی خرید پر صرف ہوئے۔ جس دن جرنیلوں کی کرپشن اور لوٹ مار پر کسی نے ہاتھ ڈالا تو زرداری، شہباز، نواز ،جہانگیر ترین ،فرح گوگی، بابر غوری اور فضل الرحمن فرشتے محسوس ہونگے۔ جرنیلوں نے اپنے مفادات کی خاطر پوری قوم کو محکوم اور گروی کر رکھا ہے۔ یوم آزادی ہم بھی شان و شوکت سے مناتے ہیں۔ لیکن آزادی کس چیز کی؟ نہ بھوک سے آزادی ملی اور نہ ظلم سے ۔ تھانوں اور عدالتوں کا کلچر سکھاشاہی کی دور کی یاد تازہ کرتا ہے۔ نا۔ انصاف اور نہ پولیس کتوں کی طرح سائل پر جھپٹی ہے۔ وکلا ملی بھگت سے کیسوں کو بیسوں سال چلاتے ہیں ۔ پولیس ڈائریکٹ گولیاں چلاتی ہے۔ بیسیوں افراد مار دیے جاتے ہیں۔ مارنے والے اور حکم دینے والے عدلیہ کے منہ پر تھوکتے ہیں۔ عمران خان کی دائیں جانب کھڑا قبضہ مافیا علیم خان آج ن لیگ میں ہے، عمران خان کے بائیں جناب کھڑا چینی چور جہانگیر ترین آج ن لیگ میں ہے، عمران خان کو ڈرگ سپلائی کرنے والا عون چوہدری آج ن لیگ میں ہے۔ یہ ثبوت ہے کہ ن لیگ میں جا کر مجرمان کو تحفظ مل جاتا ہے یا پھر وہ فرشتے بن جاتے ہیں۔ جوکروں کی حکومت اور جوکر اپوزیشن۔ نان سیریس سیاسی پنڈت۔عوامی تکالیف سے بے نیاز چھچھورے۔عوام ہر براجمان ہیں۔ پاکستان دنیا میں واحد ملک ھے جہاں ہر محکمہ شغل پر قائم و دائم ہے۔
قوم کی آنکھ کے تارے ،اندرونی اور بیرونی سرحدوں کے مخافظ بیرونی سرحدوں پر انڈین آرمی کی گولیوں کو اپنے سینوں پر روکتے ہیں۔ امن کے پیامبر جرنیل،کشمیریوں کو بھارتی سنگینوں کے سائے میں چھوڑ کر ہر سال نیا قومی نغمہ ترتیب دیتے ہیں۔ معمور فوجی جرنیل سیاسی معاملات کو بیرونی سرحدوں کیطرح میں مداخلت کو حرام سمجھتے ہیں۔ حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ میں جرنیل اور جج ملوث رہے ہیں۔ جج صاحبان کے
کے اثاثے جرنیلوں کی طرح بیحد حساب ہے۔ ان سب کے فارم ہاس ،لگثری گاڑیاں اور پلازے ہیں۔ جب منصف اور رکھوالے ہی چور ہوں۔ تو عوام ایسے ھی بے یارومددگار ہوا کرتی ہے۔ پاکستان اللہ کی نعمت اور قدرت کے حسن کا امتزاج ملک ہے۔ جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں۔ سمندر ۔ خوبصورت وادیاں۔ پانچ دریا۔سینکڑوں ندیاں۔جھیلیں،آبشاریں۔ کھیت کھلیان۔صحرا۔ میٹھے پانی کا بہت بڑا ذخیرہ۔ قدرتی گیس۔ سونا۔معدنیات۔ کوئلہ،تانبہ ۔لوہا۔ پتھرکی مائنز۔گرینائٹ اور آنیکس کے پہاڑ ۔نمک کی کانیں۔ زرخیز زرعی زمین ۔ دنیا کا پانچواں بڑا زرعی ملک۔ سیب،آم، مالٹا، کینو۔ لوکاٹ۔پیپیتہ۔ آڑو، ایلچی۔ چیری۔ انار۔ انگور۔کے بڑے بڑے باغات موجود ہیں۔ دنیا میں پانچویں نمبر پر آم ، کینو، ایلچی کی سپلائی ۔ کاٹن انڈسٹری میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک۔ سپورٹس گارمنٹس ۔ لیدر گارمنٹس میں دنیا کے پہلے چار ممالک میں نام۔ ورلڈ کلاس فیفا فٹ بال (ساکر بال)رگبی فٹ بال۔ کرکٹ بیٹ ۔ ہاکی ۔ کرکٹ بال۔ ٹینس۔ آئس ہاکی ۔میں بین الاقوامی سطح پر پہچان۔ سرجیکل اور آلات جراحی میں دنیا کا نمبر ون ملک۔ الحمد للہ سب کچھ موجود ۔ سالانہ اربوں ڈالرز کی ایکسپورٹ ۔ اس کے بعد بھی کشکول لئے ، کبھی اس در اور کبھی اس در ذلیل و رسوا ہوتی ہیں۔ جس کی بزنس کمئونٹی اپنا ائیرپورٹ ۔اپنی ائیر لائن اور اپنی مدد آپ کے تحت روڈز کا جال بچھا سکتی ہو۔اس کی عوام بھوکی کیسے مر سکتی ہے۔ موجودہ حکومت نے خود ساختہ این آر او لے لیا ۔ جس کا نوٹس لے لیا گیا۔ آئی ایم ایف نے نیی emendmends کو ریجیکٹ کر دیا ہے۔ فوجی مافیا اور جج بھی مکس اچار گروپ کے ساھ کھڑا ہے۔ جنرل باجوہ امداد کے لئے کبھی چین،کبھی سعودی عرب اور کبھی فرانس کا دورہ کرتے ہیں۔ اور سیاستدان لوٹ مار میں مصروف۔ کرونا ایکبار پھر پھیل رہا ہے۔ جعلی ادویات کی بھرمار ہے۔ ادویات بنانے والی یہ جعلی کمپنیاں موت بانٹ رہی ہیں۔ جعلی اور چور اچکے لیڈرز مسلط ہوں تو ہر کوئی عوام سے فراڈ کے چکر میں رہتا ہے۔ اسلئے ان ظالم درندوں سے جان چھڑا کر باکردار لوگوں کو منتحب کریں جو حقیقی حدمت پر یقین رکھتے ہوں۔ وہ صرف جماعت اسلامی ہی ہے۔
٭٭٭