امریکہ کے مشہور سینیٹر”چک شو مُر”سے سوال؟

0
107
کامل احمر

امریکہ کے سفارتی حلقوں نے جون میں14افریقی ممالک کو خبردار کیا تھا کہ روس یوکرائن سے لوٹا ہوا گندم برآمد کر رہا ہے۔اس خبر سے ہمیں اور بہت سی خبریں یاد آگئیں کہ صدام حسین کے محل کی دیواروں سے نکلے کھربوں ڈالر کہاں گئے تب تو کسی سفارتی حلقے نے نہیں بتایا اور یہ کام تو سی آئی اے کا ہے اور ہمارے سفارت کار یہ بیان دے رہے ہیں۔اور اس میں مزاح کا پہلو یہ ہے کہ پسماندہ غریب ترین ممالک کے عوام بھوک سے بلکتے لوگ کھاتے وقت کیا اس بات پر غور کرینگے کہ یہ حرام ہے۔یا حلال، خریدا ہے یا لوٹ کا ہے۔اس سامراج نے پچھلی کئی دہائیوں سے ان ملکوں کی جو درگت بنائی ہے اس کی مثال آج کا پاکستان ہے ایک نئی تاریخ لکھی جارہی ہے کرنے والا اور لکھنے والا ایک ہی ہے۔
پچھلے دنوں ایک پاکستانی امریکن تنظیم نے”میٹ اینڈ گریٹ” کے نام سے لانگ آئیلینڈ امریکہ کے مشہور سینیئر اور مشہور سینیٹر(ڈیموکریٹک)چک شومر(CHUCK SCHUMER)کو جو سینیٹ میں میجورٹی لیڈر ہیں مہمان خصوصی کے طور پر دعوت دی۔ہمارا یہ کہنا ہے کہ وہ نیویارک کی بہتر نمائندگی کرتے رہے ہیں ماشاء اللہ1999سے اس کرسی پر براجمان ہیں جو امریکہ میں صدر کے بعد سب سے اہم ہے جو نئے قانون بناتے ہیں اور ردو بدل کرتے ہیں بین الاقوامی حالات پر نظر رکھتے ہیں۔سپریم کورٹ کے نئے جج کی تعیناتی سے پہلے اس سے سوال جواب کرتے ہیں۔چک شومر شکل سے نرم دل اور خوش مزاج لگتے ہیں ہم ان سے کبھی ملے نہیں ویسے بھی یہ دور ملنے جلنے کا نہیں۔ای میل اور ڈبلیو ڈبلیو ڈاٹ کا ہے آپ کانگریس مین یا سینیٹر سے جلسہ میں یا میٹنگ میں ہی مل سکتے ہیں یہ ساری تبدیلیاں9/11کے بعد کی پیداوار ہیں۔ہم اس تنظیمAPAGکی اس تقریب میں شامل نہ تھے لیکن یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ایک نہایت ہی جہاندیدہ صحافی اور ہمارے دوست جہانگیر خٹک شامل تھے۔اور ان کا سوال سن کر جو انہوں نے چک شومر سے کیا تھا، لگا کہ وہ ہماری نمائندگی کر رہے تھے۔جہانگیر خٹک کے سوال کے جواب میں چک شومر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پاک امریکہ تعلقات کو خراب کیا امریکہ مخالف بیانات نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو سرد مہری کاشکار کیا”پھر بھی انکا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی عوام نے عمران خان کو دوبارہ منتخب کیا تو وہ تعلقات کی بحالی ہیں کردار ادا کرینگے۔ہمارے ایک محدود اندازے کے مطابق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چک شومر کو اس بات کا علم نہیں کہ پس پردہ عمران خان کی حکومت گو راتوں رات گرانے میں امریکہ کا کیا کردار ہے بہت ممکن ہے اگر ہم وہاں ہوتے اور ہمیں علی رشید سوال کرنے کی اجازت دیتے تو ہم ان سے کئی سوال کرتے اور آج بھی تیار ہیں اگر وہ ہمارے کالم کی انگریزی کاپی جو وہ حاصل کرسکتے ہیں بڑھ کر ہمیں سمن کر سکتے ہیں یہ ہمارا حق ہے یہ ہمارا گھر ہے یہ انکا گھر ہے اور وہ ہمارے پسندیدہ سینیٹر ہیں ہر چند کہ ہم ریپبلکن ہیں لیکن اگر وہ کچھ کام کریں جو پاکستان کے اندرونی حالات کو صحیح معنوں میں جمہوریت کے راستے پر کردیں جس کے وہ علمبردار ہیں تو ممکن ہے ہم اپنی ممبر شپ بدل کر ڈیموکریٹک کرلیں سوال یہ ہے ان کے لئے”شومر صاحب امریکہ میں پس پردہ نمک کے برابر غیر قانونی باتیں ہیں لیکن کوئی بھی بڑا سیاست دان پکڑا جاتا ہے تو وہ سیاست سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور جیل جاتا ہے ہم پچھلے50سال سے یہ دیکھ رہے ہیں مطلب یہ کہ قانون کی بالادستی ہے اور امریکہ کی یہ ہی خوبصورت مثال ہے لیکن جہاں امریکہ کی بیرونی پالیسی کا سوال آتا ہے تو سوالیہ نشان آنکھوں کے سامنے بڑا ہو کر آتا ہے بالخصوص پاکستان کے معاملے میں ہمارا دوسرا سوال یہ کہ پاکستان کی موجودہ حکومت سو فیصدی چوروں، مجرموں اور قاتلوں پر مبنی ہے امریکہ کے پاس ان سب کی کریڈٹ لسٹ ہے امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ مسٹر زرداری ٹائم میگزین کے دعوے کے تحت مسٹر10فیصدی اور اب سو فیصدی بن چکے ہیں۔شریف برادران اور فیملی انتہائی کرپشن میں دھنسی ہوئی ہے پھر بھی امریکہ اس حکومت کی نگرانی کر رہا ہے امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ باجوہ اینڈ پلدٹی نے ڈیفنس سوسائٹی اور فلاحی اداروں کے نام پر لوٹ مار کر رکھی ہے اگر ہم یہ بات جانتے ہیں تو سی آئی اے بھی جانتی ہے اس حکومت کو بٹھانے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں آپ کے الفاظ کافی ہیں کہ عمران خان نے پاک امریکی تعلقات(جو کبھی عوام کے لئے نہیں تھے)خراب کئے۔یہ تیسرا سوال ہے کہ کیا آپ نے غور سے عمران خان کے بیانات سنے ہیں وہ کہتا ہے ہم دوستی چاہتے ہیں غلامی نہیں یہ بھی درست ہے کہ جبIMFادھار دیتا ہے تو شرائط بھی رکھتا ہے ایسا ہی ہے کہ بنک سے قرض لیتے وقت ان کی بات ماننا پڑتی ہے تو پھر وہ پاکستان میں امریکی سفیر یہ رپورٹ نہیں کرتے کہ یہ سارے سیاستدان قرض دی گئی رقم لوٹ کر بیرونی ممالک میں مشتعل کردیتے ہیں۔اور چوتھا سوال یہ کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کی سنی وہ ہی کیا جو امریکہ نے کہا تو پھر اس ملک کی بہتری کے لئے بھی سوچنا آپ کا کام ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ عمران خان اس وقت90فیصدی پاکستانیوں کی پسند ہے۔تو شفاف الیکشن کروا دیں ہمیں پورا یقین ہے کہ اگر بائیڈن انتظامیہ وہائٹ ہائوس، میڈیا اور دوسرے حلقوں میں گھسی انڈین لابی کی باتوں سے پرہیز کرینگے تو یقیناً ہر پاکستانی امریکہ زندہ باد کہے گا۔فی الحال وہ سب امریکہ میں ہجرت کرنے کے خواہشمند ہیں ایک اور سوال یہ کہ ٹرمپ نے امریکی قانون کی پابندی کرائی تھی۔جس میں غیر قانونی ہجرت شامل ہے۔اور بارڈر کی پابندیوں پر عملدرآمد کا حکم صادر کیا تھا۔اور آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ امریکہ کا جو بنیادی ڈھانچہ ہے خدارا اسے نہ بدلا جائے اور لاقانونیت کو روکا جائے۔مدد کرنا ضروری ہے اگر ہماری جیبیں بھری ہوں۔پچھلے دنوں اسٹار بک کافی شاپ میں ایک خاتون جن کی پچھلی تین پشتیں امریکی ہیں کہہ رہی تھیں ہم دنیا میں سب سے مالدار لوگ ہیں پھر وہ ہنسی اور ہمارے پوچھنے پر کہنے لگی۔”ہم دوسرے ملکوں کو بوری بھر بھر کر ڈالر بانٹتے ہیں لیکن خود علاج معالجے پر اپنی سیونگ کھو دیتے ہیں۔سب سے بدترین ہیلتھ کیئر نظام کی زد میں ہیں۔ شومر صاحب اسی امریکی80سالہ خاتون کا درد ہم سمجھ سکتے ہیں اور آپ بھی جانیں کہ جو زندگی بھر ٹیکس دیتا ہے وہ مفت علاج کو ترستا ہے۔اور جو کچھ بھی ٹیکس نہیں دیتا وہ مرسیڈیز چلاتا ہے۔اور آخری سوال ہم پچھلے پچاس سال سے دیکھ رہے ہیں کہ امریکی صارفین، بنک، انشورنس دوا ساز کمپنیوں اور اب آئل کمپنیوں کی ضرورت سے زیادہ منافع خوری کی زد میں ہیں۔آپ سمیت کیا کوئی بھی سیاستدان امریکی عوام کے اس درد کو محسوس کرتا ہے اور اگر نہیں تو امریکہ اور تھرڈ ورلڈ ملکوں کی سیاست کا فرق؟۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here