گزشتہ سے پیوستہ!!!
مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف وہ تیغِ بے نیام تھے۔ پونچھ شہر میں وہ اپنی شاعری اور تقریروں سے پاکستان کی حمایت میں عوام کو بیدار کرتے اور آزادی کیلئے ہمہ وقت مصروف رہتے۔ 14اگست 1947 میں جب اعلانِ پاکستان ہوا تو جموں و کشمیر میں مسلمان رہنمائوں کو گرفتار کیا جانے لگا۔ والد صاحب کی گرفتاری کے بھی احکامات جاری ہوئے تو آپ خفیہ راستوں سے پاکستان ہجرت کر گئے۔ جموں و کشمیر کی آزادی اور کشمیر کے الحاقِ پاکستان کا جذبہ مجھے وراثت میں ملا ہے۔ میں یہ بات تاریخی ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ آزاد کشمیر کے تین بڑے لیڈر بانی صدر ریاست سردار ابراہیم خان، وزیرِ اعظم سردار محمد عبدالقیوم خان اور وزیرِ اعظم سردار سکندر حیات خان میرے والد ِ گرامی کے شاگرد رہے ہیں اور ان کی علمی، ادبی اور سیاسی خدمات کے دل و جان سے معترف تھے۔ یہ لیڈر آزادی کشمیر کے نقیب تھے۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیرِ اعظم چوہدری سلطان محمود جو موجودہ صدر ہیں اور سابق صدرِ آزاد کشمیر سردار مسعود خان کو آج امریکہ میں پاکستان کے سفیر ہیں گورڈن کالج راولپنڈی میں شاگرد رہ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کے کئی مرکزی اور صوبائی وزیر، جرنیل، وفاقی سیکریٹری، ہائی کورٹ کے جج اور سفیر میرے شاگردوں میں شامل ہیں جن پر مجھے فخر ہے، میری والدہ صاحبہ جب مہاجرت کر کے آئیں تو ان کا سارا خاندان پونچھ شہر میں ہی رہ گیا۔آپ ساری زندگی اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے غم میں گریہ کناں رہیں۔ مجھے آج بھی ان کی آہ و فغاں یاد آتی ہے تو آنکھوں سے اشکوں کی آبشار جاری ہو جاتی ہے۔ یہ جملے کہتے وقت بھی میری آنکھوں نے آنسوئو ں سے وضو کیا ہے۔ کشمیر کی آزادی میرا ایمانی اور نظریاتی معاملہ ہی نہیں، ایک شدید جذباتی مسئلہ بھی ہے۔سوال: کشمیر کی آزادی کیلئے بحیثیت ایک دانشور، ادیب، مصنف اور شاعر کیا کردار ادا کیا جواب :میں علمی دنیا کاراہی ہوں ۔اس لئے اس محاذ پر تن، من و دھن سے الحمد للہ کام کررہا ہوں ۔میری کشمیر پر تین حسبِ ذیل کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
میں 1991سے1995تک وزیرِ اعظم آزاد کشمیر سردار محمد عبدالقیوم کا مشیر رہا ہوں۔مسئلہ کشمیر پر وہ مجھ سے مشورہ کرتے۔ میں نے ان کے ساتھ کئی ممالک کے دورے کیے اور اپنی تحاریر اور تقاریر سے ملکی اور عالمی سطح پر خدمات انجام دیں۔ میں ریکارڈ پر یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ وزیرِ اعظم پاکستان سردار ظفر اللہ جمالی مرحوم نے بحیثیت وزیر اعظم پاکستان، جناب آصف علی زرداری صاحب نے بحیثیت صدرِ پاکستان مجھے حکومت میں اعلی عہدوں کی پیشکش کی جو انتظامی امور سے متعلق تھے لیکن میں نے بصد شکریہ معذرت کر لی اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے علاوہ کسی عہدے میں دلچسپی نہ لی۔سوال: پاکستانی ادبا اور شعرا کشمیر کے معاملے میں زیادہ حساسیت کا مظاہرہ نہیں کر رہے -کیا وجہ ہے؟جواب:پاکستانی تو کیا کشمیری ادیب اور شاعر بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہے۔نئی نسل میں اب کشمیر پر لکھنے والے لوگ خال خال ہیں۔ اب غنی کاشمیری، مرزا داراب جویا، مسکین ،فانی، مہجور، آزاد، رسل میر، مشتاق کشمیری ،شہید علی محمد شہباز، حفیظ جالندھری، ضمیر جعفری، احمد شمیم، طاس بانہالی، تحسین جعفری، مسعود کشفی، محمد علی کنول اور آزر عسکری کو کہاں ڈھونڈیں جن کی شاعری آج بھی نقارہ آزادی ہے۔سوال: پاکستان کی کشمیر پالیسی پر کچھ کہنا پسند کریں گے۔جواب :میری رائے میں پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق یا وکیل ہی نہیں بلکہ کشمیر کا حقدار ہے۔تقسیمِ ہند کا جو فارمولہ لارڈ ماونبیٹن کی صدارت میں طے ہوا تھا اس کے مطابق مہاراجہ ریاستوں کو یہ اختیاردیا گیا تھا کہ وہ آزادی سے بھارت یا پاکستان میں شامل ہوں۔ ہندو اکثریتی ریاستیں ہندوستان اور مسلمان اکثریتی ریاستیں پاکستان میں شامل ہوں۔جموں وکشمیر کی 80 فی صد آبادی مسلمان ہونے کے ناطے کشمیر پاکستان کے حصے میں آتا ہے۔ میں نے کشمیر پر اپنی کتابوں میں تاریخی اور قانونی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے- اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں استصواب ِرائے اور رائے شماری لازمی ہے۔ ہندوستان کے آئین میں دفعہ 370 اور 35/ A کشمیر کو متنازع ریاست تسلیم کرتے ہیں۔ 5 اگست 2019 میں مودی حکومت کا مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ اقدام بھارتی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ رہی پاکستان کی کشمیر پالیسی تو وہ واضح ہے۔ پاکستان اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا پابند ہے۔ البتہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو چاہیے کہ وہ سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں خصوصی توجہ دے۔ OIC کو متحرک کرے اور مغرب کی جمہوری اقوام سے رابطہ کریں۔ ابھی تک پاکستانی وزارتِ خارجہ کوئی فعال کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے جاری تحریک آزادی اہل کشمیر کی اپنی تحریک ہے تو اس کی مضبوط دلیل بھی ہونی چاہیے جو کہ اگر چہ ہے بھی لیکن سیاسی،سفارتی اور اخلاقی حمایت سے بڑھ کر مسئلہ کشمیر کے وکیل اور تنازعے کے مستند فریق ہونے کے ناطے پاکستان کو یہ کردار اب پہلے سے زیادہ بڑے واضح انداز میں ادا کرنے کی ضرورت ہے۔کسی کی ذات کو ہدف تنقید بنائے بغیرپاکستان کے جو مقتدرہ اور پالیسی ساز ادارے مسئلہ کشمیر کو دیکھ رہے ہیں یا اعلی سطح پر پالیسیاں تشکیل دینے میں اپناحصہ ڈال رہے ہیں ان اداروں کو بھی اب اپنی پالیسیوں میں سرعت لانے اور از سرِ نو موجودہ حالات کے تقاضوں کے پیش نظرہم آہنگ کرنا ناگزیر ہے۔دنیا کے حالات بہت تیزی کیساتھ بدل رہے ہیں۔جس میں سب سے بڑی مثال غزہ/ فلسطین کی موجودہ صورتحال ہمارے پیش نظر ہونی چاہئے۔جہاں ظالم اور مظلوم نبرد آزما ہیں،مگر دنیا کی خاموشی معنی خیز ی کیساتھ ساتھ مجرمانہ بھی ہے۔ س -کونسا کردار؟ جواب:میں جانتا ہوں کہ پوری دنیا میں پاکستانی سفارتخانوں میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نہ ہونے کے برابر کام ہورہا ہے۔پاکستان کے دانشوروں کو یہ باور کرانا ہے کہ مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کیساتھ ساتھ خود پاکستان کی بقا اور سلامتی کیلئے ناگزیر ہے لہذا اس تنازعے پر صرفِ نظر خود مملکت خدا داد کی جغرافیائی سرحد اور سلامتی پر سمجھوتے کے مترادف ہے۔امریکہ اور یورپی یونین میں مسئلہ کشمیر پر بھر پور لابنگ ،کشمیری اور پاکستانی دانشوروں کے علاوہ ان ممالک میں ڈائسپورہ اور اہم پالیسی سازوں کیساتھ رابطہ کرنا ہے۔ چین اور روس کمیونسٹ بلاک کو متحرک کرنا ہے،کیونکہ یہ دونوں ممالک بظاہر مغربی بلاک یعنی امریکی بلاک سے قدرے فاصلے پر ہیں اور ان کی پالیسیاں بھی مغربی بلاک سے میل نہیں کھاتی۔اگر ہم ان تینوں اہداف پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہوگئے تو بھارت کو مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔اس کیساتھ ساتھ بھارت کو راہ راست پر لانے کیلئے ایک بھرپور ریاست گیر تحریک جو سیاسی اور عسکری سطح پربھی ہو ضروری ہے۔ سوال: ریاست کے بڑے دانشور کیا کہتے ہیں -کشمیر کا مستقبل کیا ہے؟ جواب۔۔۔فارسی میں کہتے ہیں:ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است۔۔ہر دانشور کی اپنی اپنی رائے ہے۔ کوئی کشمیر کے الحاقِ پاکستان کا حامی ہے تو کوئی انڈیپنڈنٹ کشمیر یا تقسیم کشمیرکا حامی ہے۔ ہر شخص کے پاس دلائل ہیں۔ میں کشمیر کے الحاقِ پاکستان کا حامی ہوں۔ سوال: مزاحمتی ادب کی قوموں کی تحریکوں میں کیا اہمیت ہے؟ جواب ۔۔۔۔مزاحمتی ادب تحریکوں میں مہمیز کا کام کرتا ہے۔ ہمارے ہاں علامہ اقبال اور جوش ملیح آبادی نے انگریز کے خلاف بے مثال مزاحمتی ادب تخلیق کیا۔ پاکستان میں فیض احمد فیض، حبیب جالب اور احمد فراز مزاحمتی ادب کے نمائندہ شاعر ہیں۔ میری چند شاعری کی کتابوں کے عنوان گوش قفس، اوجِ دار اور روزنِ دیوارِ زنداں ہیں۔ کتابوں کے عنوان ہی بتاتے ہیں کہ یہ شاعری مزاحمتی شاعری ہے۔گوش قفسجنرل ضیا کے آمرانہ دورِ حکومت میں شائع ہوئی تو حکومتی خفیہ ایجنسیوں نے اس کی اشاعت پر سخت نوٹس لیا اور ان اداروں میں مجھے طلب کیا گیا۔ صد شکرِ خدا اپنا جو مزاج تھا وہ آج بھی ہے۔ بقولِ علامہ اقبال!
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
س:کیا آپ کو یقین ہے کہ کشمیر کبھی بھارت کے چنگل سے آزاد ہوگا؟
جواب:کسی بھی قوم کو دیر تک غلام نہیں رکھا جا سکتا۔ دنیا میں آزادی کی تحریکوں نے ثابت کیا ہے کہ خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ ایک وقت تھاجب دنیا کے مختلف ممالک پر عالمی استعمار انگلستان، فرانس اور اٹلی کا قبضہ تھا۔ عراق، بھارت، لیبیا، جنوبی افریقہ، الجزائر اور مراکش پر استعماری حکومتیں تھیں جو آج آزاد ممالک ہیں۔بھارت کا مقبوضہ جموں وکشمیر پر ناجائز قبضہ ہے۔ کشمیری عوام کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔ ہمیں عالمی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔مسئلہ کشمیرپر پالیسی کو نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہنامہ کشمیر الیوم کے قارئین کے نام آپ کا پیغام
جواب- ماہنامہ کشمیرالیوم کیلئے میرا یہ پیغام ہے کہ وہ جوصحافتی سطح پرپرامن اور مدلل طریقہ سے مسئلہ کشمیر کو قومی اور عالمی سطح پر اجاگر کر رہے ہیں اس نیک کام کو جاری رکھیں اور بھارت کی جانب سے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کو بے نقاب کرتے رہیں۔ ماہنامہ میں چند انگریزی اور عربی مضامین بھی شامل کیے جائیں اور اسے با اثر غیر ملکی سفارت خانوں میں بھی۔
٭٭٭