9مارچ2007ء کو جنرل مشرف نے پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو نہ صرف عہدے سے ہٹایا تھا بلکہ رسوا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی جس کے خلاف دنیا کی مشہور پاکستان میں وکلاء تحریک نے جنم لیا جو اندرون وبیرون ملک پھیل گئی جس کی بنیاد راقم الحروف اور دوسرے تمام وکلا برداری نے امریکہ میں رکھی جس میں پاک امریکن وکلاء برائے حقوق تنظیم پیش پیش تھی۔ امریکہ میں درجنوں احتجاجی جلسے جلسوں اور سیمینار منعقد کئے گئے۔ جس سے پاکستان کے چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت درجن بھر ججوں، وکیلوں اور لیگل اسکالروں اور قانون دانوں نے خطاب کیا تھا۔ یہ سب کچھ تب ہی ہوا جب چیف جسٹس نے جنرل مشرف کے سامنے جھکنے اور احکامات ماننے سے انکار کردیا تھا۔ جن کے اس انکار کے بعد دنیا کی مشہور ترین تحریک بن گئی کہ جس کی حمایت میں انٹرنیشنل بار، امریکن بار، نیویارک بار، کینیڈین بار، بھارتی بار اور نہ جانے کس کس ملک کی وکلا بازوں نے احتجاجات منعقد کئے جس کے بعد سپریم کورٹ نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو باعزت بحال کیا تو جنرل مشرف نے پھر دوبارہ آئین معطل کرتے ہوئے عدلیہ برطرف کردی جس کو دو سالہ وکلاء طویل تحریک کے بعد اشرافیہ کو پوری عدلیہ کو غیر مشروط طور پر16مارچ2009کو بحال کرنا پڑا جس کے اثرات ملک بھر کے اداروں پر پڑے کہ جب سپریم کورٹ نے ملک کی مقدس گائیوں کو بھی عدالتوں میں طلب کرلیا جن کی عدالت میں جنرل، آئی جی، چیک سیکرٹری ججوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے۔ جس سے لگتا تھا کہ پاکستان کی عدلیہ آزاد ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ملک میں قانون کی بالاتری اور آئین کی بالادستی قائم ہوجائے گی مگر وکلاء تحریک کے نتائج مثبت کے ساتھ ساتھ منفی بھی نکلنے لگے کہ جب اشرافیہ اور ان کے گماشتوں نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کا محاصرہ کرلیا۔ جن کی کردار کشی شروع ہوگئی ہے۔ جن کے ڈرائیور چودھری اعتزاز احسن نے چیف جسٹس کو نوکری چھوڑ کر جنرلوں کے پروردہ ملک ریاض کا ساتھ دیا جو اپنے اوپر بڑے بڑے مقدمات کی وجہ سے چودھری صاحب کے خلاف ایک غیر ملکی اسیکنڈل لے کر آگیا جن کی اشرافیہ اور ان کے گماشتوں نے کھل کر حمایت کی تھی۔ بعدازاں وکیلوں نے بھی اپنی کتاب اور قلم چھوڑ ہاتھوں میں ڈنڈا لے لیا۔ جو آئے دن ججوں اور پولیس اہلکاروں کو مارنے پیٹنے لگے جس سے وکلاء برداری میں ایک وکلا مافیا پیدا ہونے لگا جو آج بھی موجود ہے تاہم وکلاء تحریک کے مخالفین نے بھی وکیلوں کو تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس میں عمران خان کے موجودہ وکیل پیش پیش ہیں جس میں بابراعوان، گوہر، علی ظفر، افضل شیرومروت، نعیم بخاری اور دوسرے قابل ذکر وکیل ہیں جو کل بھی وکلا تحریک اور عدلیہ کے خلاف تھے آج بھی جس میں عمران خان نے چیف جسٹس افتخار کی کردار کشی میں حدیں پار کر دی تھیں۔ جن کا موجودہ پروردہ وکیل افضل شیر مروت نے بطور سول جج نے جسٹس افتخار چوہدری کو جج کالونی کے گھر سے باہر نکالنے کے لئے نوٹس پہ نوٹس بھیجتے رہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ جولائی2009کے ایک تاریخی فیصلے میں جنرل مشرف کے تمام غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ جنرل مشرف پر آئینی شکنی کے تحت آئین سے غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔جس پر زرداری حکومت کی بجائے نواز حکومت نے مقدمہ درج کیا جس میں چیف جسٹس پشاور جناب وقار سیٹھ کی سربراہی میں سزائے موت سنائی گئی جسکی جنرل نواز ٹولہ عمران خان نے ماننے سے انکار کردیا تھا جس بھر کو عمرانی ٹولہ نے اپیل کی آڑ میں روکے رکھا مگر آج پھر موجود چیف جسٹس قاضی عیٰسی نے جنرل مشرف مرحوم کی سزا کو بحال کردیا ہے۔ جس پر برطانوی فیصلوں کے مطابق عملدرآمد ہوسکتا ہے بشرطیکہ پاکستان کی اشرایہ یزیدی اور حسینی اعمال میں فرق محسوس کریں۔ بہرکیف 9مارچ2007کی وکلاء تحریک رنگ لا رہی ہے جس تحریک کی بدولت پاکستان کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کے نامزد کردہ جج صاحبان، جسٹس جواد خواجہ، جسٹس قاضی عیٰسی، جسٹس طہرامن اللہ، جسٹس مقبول باقر اور دوسرے جج صاحبان ملک میں قانون کی بالاتری کے لئے کوشاں ہیں جس کو جسٹس ثاقب نثار، جسٹس سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد جسٹس بندیال روکنے کے لئے آڑے آئے ہیں۔ مگر سفر جاری ہے اور جارہے گا۔ چاہے کتنی مشکلات سامنے آئیں۔ بہرحال کالا کوٹ کا استعمال مثبت سے منفی بن چکا ہے۔ کہ جس میں وکلاء برداری ایک تیسری طاقت بن کر سامنے آئی ہے۔ جو مثبت کی بجائے منفی رحجانات حاصل زیادہ ہیں۔ جو ہما وقت کالا کوٹ میں تن رکھتے ہیں جن سے اہلکار خوفزدہ رہتے ہیں۔ حالانکہ کالاکوٹ ایک ڈریس کوٹ کا حصہ ہے۔ جو پاکستان اور بھارت کو برطانیہ نے بطور لعنت لعنت تحفہ دے رکھا ہے۔ جو برطانوی مزاج کی غلامی کی نشانی ہے۔ جس کو عدالتوں کے باہر گلی کوچوں میں استعمال کیا جارہا ہے کہ آج ٹی وی شوز میں بڑے بڑے وکلاء لیڈر راتوں کو بھی کالے کوٹ پہنے بحث مباحثوں میں نظر آتے ہیں۔ جو احساس کمتری اور احساس محرومی کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ جوایک فوجی اور پولیس والے کی طرح ڈیوٹی کے بغیر وردی میں ملبوس نظر آتے ہیں تاکہ لوگوں پر وردی کا دبدبہ قائم رہے یہی حال آج وکلاء کا ہے جو ہر وقت عام بلیک جگہوں پر کالے کوٹ پہنے گھوم رہے ہیں جس سے وکلا کا عظیم پیشہ بدنام ہو رہا ہے۔
٭٭٭٭