”علم حاصل کرو، قرآن یا سنّت پر چلو”

0
15
کامل احمر

میرے رسول نے فرمایا ”علم حاصل کرو اگر چین(دور دراز) تک بھی جانا پڑے، ہزاروں مثالیں ملتی ہیں اور حکایات جو آپ کو علم کی طرف لے جاتی ہیں۔ ابن بطوطہ مراکش کا مشہور سیاح تھا بہت تعلیم یافتہ دینی اور دنیاوی تعلیم سے مکمل مگر پھر بھی وہ اور بہت کچھ دیکھنا اور سیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے بہت کم عمری میں حج کیا اور اگلے تیس سال سیاحت میں گزار دیئے بہت کچھ چھوڑ کر گیا جو ادب کا سرمایہ اور علم کی زنبیل ہے۔ اس نے اپنے رسول صلعم کی حکایت کو ذہن میں رکھ کر کہا تھا”پالنے(CRADLE)سے قبر(GRAVE) تک علم حاصل کرو۔” علم وہ روشنی ہے جو آپ کو آگے بڑھنے، سوچنے، حکمرانی کرنے اور لوگوں کو تعلیم دینے کے کام آتی ہے۔ دنیا میں کسی بھی ملک میں چلے جائیں حتیٰ کہ کیوبا جیسے سوشلسٹ غریب ملک میں۔ جگہ جگہ لائبریریاں اور کتابوں کی سجی دوکانیں ملینگی مصر میں جگہ جگہ پھل فروٹ کے ٹھیلوں اور دوکانوں کے درمیان لوگوں کو نئی اور پرانی کتابیں فٹ پاتھ پر سجائے دیکھا کچھ بچوں کو رات میں فٹ پاتھ پر پڑھتے لکھتے اور ساتھ میں چھوٹی موٹی ضرورت کی اشیاء بیچتے دیکھا۔ اسپین کے شہر قرطبہ میں گلیوں میں لوگوں کو ایک ضعیف قصہ گو کو سنتے دیکھا۔ مراکش(MOROCCO) میں سب سے زیادہ ہر شہر کی گلیوں میں جا بجا کتابوں کی دوکانیں دیکھیں اور مصر میں ہی سکندریہ میں سب سے بڑی(دوسرا نمبر) لائبریری دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایسا ہی کچھ پاکستان میں بھی تھا جب تک ہم وہاں تھے جب پچاس سال پہلے ہم نے اس ملک کو خیرباد کہا۔ شروع میں کئی بار گئے اور جب بھی گئے۔ ملک کا نظام بگڑتے دیکھا اور کبھی نہ آنے کا فیصلہ کیا جو ہم اب تک قائم ہیں ایک حساس انسان وہ سب کچھ دیکھ کر زندہ نہیں رہ سکتا جو پچھلے 23، 35سالوں میں ملک کے ساتھ ہوا۔ اس سے پہلے ملک کا ایک ٹکڑا پاکستانی93ہزار فوج کے ہوتے ہوئے ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوگیا اور بنگلہ دیشی کا وجود قیام میں آیا۔ بنگالیوں نے ایک قوم بن کر محنت کی زرمبادلہ بڑھایا نئے پل اورTVNNELبنائیں اور دنیا کو حیران کردیا۔ دنیا کا سب سے لمبا برج سمندر پر بنا کر اپنے ہی اثاثے استعمال کئے اورIMFکو شرمندہ کردیا اور آج بتاتے چلیں کہ اس ملک میں صرف تعلیم پر678ارب خرچ ہوتا ہے۔ اور پاکستان میں صرف 6ارب اس میں سے بھی لوٹ مار کرتے ہیں حکمران اور ان حکمرانوں نے جس طرح قرآن پاک اور سنت رسول ۖکا مذاق اُڑایا ہے وہ ڈوب مرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ سینکڑوں لوگ ملک سے باہر اور اندر لکھ رہے ہیں لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے پھر یہ کیوں کرسچین لوگوں کو توہین رسولۖ کے الزام لگا کر آگ میں پھینکتے ہیں اور عمر قید بامشقت دیتے ہیں۔ ایک گورنر کچھ کہا تھا تو اس کے ڈرائیور نے اسے دن دیہاڑے مارا۔ پھانسی ہوئی اور اب اس کے مزار پر لوگ پوجا کرنے جاتے ہیں ایک کاروبار بنا رکھا ہے۔ آئیں ذرا رمضان کے مہینہ میں یہاں اور وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر نظر ڈالیں۔ سعودی عربیہ میں حکومت کی طرف سے افطار کرایا جاتا ہے مکہ مظعمہ اور مسجد نبوی میں پھر حج کے موقع پر جگہ جگہ بڑی مقدار میں کھانا ضائع جاتا ہے۔ افطار میں بے حساب کھانا لگتا ہے آدھے سے زیادہ ضائع ہوجاتا ہے۔ لوگ پورے سال عمرہ کرنے جاتے ہیں واپسی میں یہ کہتے ہیں ”تیز رفتار ٹرین کا جواب نہیں ” اور کیا ہائی وے بنائے ہیں۔ ہمیں تو ہوٹل بہت قریب ملا تھا اپنے30ویں فلور سے خانہ کعبہ کو دیکھ سکتے تھے۔ اور اب تو قطر تک ٹرین شروع ہونے والی ہے۔ اور یہ سب دیکھنے کی چیزیں بن گئی ہیں بجائے اس کے کہ عبادت گاہ بنیں زیادہ تر لوگوں کے لئے اور ایجنٹ اور سعودی عربیہ لوگوں کو دعوت دیتا ہے۔ عمرہ کرنے پر35سو ڈالر اگر آپ اکیلے ہیں اور دو میں تو2سو ڈالر۔ یہ نیوارک، شکاگو سے ہے اور یہاں جو ہم نے ہر روز مختلف تنظیموں، لوکل سیاست دانوں(پاکستانی) پولیس والوں(پاکستانی) کی طرف سے روز افطار کا بندوبست ہوتا ہے۔مساجد میں بہت اہتمام ہوتا ہے ہزار ہا ڈالر اس کی نذر ہوتے ہیں جیسے گھروں میں عورتوں نے افطاری بنانا ختم کردی ہو یقین کریں اس ملک یا اس شہر میں کوئی بھوکا نہیں اور نہ کوئی بے گھر ہے۔ لیکن وہ آسانیاں ڈھونڈتے ہیں۔ چند مساجد کو چھوڑ کر ہر بڑی مسجد میں فنڈ لاکھوں ڈالرز میں ہوتا ہے۔ دوسری طرفICNAجیسے کئی ادارے گورنمنٹ سے اور نجی طور پر فنڈ اکٹھا کرتے ہیں لیکن وہ پورا نہیں پڑتا۔ ان کے رویئے دیکھیں تو ماشاء اللہ کچھ ایسے افراد ہیں جو کونسلر اور بڑے لوگوں(ڈاکٹرز) کو اپنے ساتھ البنیٰ(نیویارک کا دارالخلافہ) لے جاتے ہیں۔ اور وہاں سےCITATIONوصول کرکے تین تین بل پاس کرا لیتے ہیںجن کا تعلق شہریوں کی سہولتوں سے نہیں۔ ذرا وہ لونگ آئیلینڈ میں گھوم کر سڑکیں دیکھیں۔ یہ ریاست لگتا ہے اپنی مشہوری کے لئے تنظیموں کو فنڈ دیتی ہے۔ بھلے سڑکیں پاٹ ہول سے بھری ہوں۔ اور لونگ آئیلینڈ میں بڑے بڑے چوراہوں پر کوئی سڑک کا سائن نہیں ملتا ہے۔25سال رہتے ہوئے آئے۔ کچھ نہیں ہوا۔ ناسا کائونٹی نے ایک اور ڈھونگ رچایا ہے کچھ پیسے والے افراد یا ڈاکٹر کو انہیں عہدے دے کر اپنی جیب میں رکھا ہے ان بے چاروں کو معلوم نہیں کہ خدمت کیا ہوتی ہے۔ وہ اپنی پسند کے لوگوں کو اعزاز دلوا کر خوش ہوتے ہیں پولیس کمشنر کو بلا کر انہیں آسمان پر بٹھاتے ہیں۔ جیسے یہ کوئی عوام کی بھلائی کا کام کر رہے ہیں۔ حالانکہ اپنے فائدے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔25سال پہلے ناسا کائونٹی بہت ٹھیک تھی۔ ہائے والے والوں کو فون کرو وہ دوسرے دن پاٹ ہول بھرنے آجاتے تھے ویلی اسٹریم میں جمعہ کی نماز کے دوران مسجد کی گلی میں جانے سے پہلے پانچ سڑکوں کا ٹریفک جمع ہوکر پیدل چلنے والوں کو خطرے میں ڈالتا ہے لیکن ہمارے خود ساختہ رہنما پولیس کو CALLنہیں کرتے کہ وہ دو گھنٹے کے لئے ذرا نگرانی کرلیں۔ ہر طرف ٹریفک جام ملے گا۔ اور چونکہ یہ رمضان المبارک کے آخری دن ہیں اور لیلة القدر کی راتیں ہیں تو سورة خلق کا ذکر کرتے چلیں۔ بشم اللہ الرحمن الرحیم آپ عرض کیجیئے کہ میں(ایک) دھماکے سے انتہائی تیزی کے ساتھ(کائنات) وجود میں لانے والے رب کی پناہ پناہ مانگتا ہوں اور ہر اس چیز کے شر( اور نقصان) سے جو اس نے پیدا فرمائی ہے اور (بالخصوص) اندھیری رات کے شر سے جب(اس کی) ظلمت چھا جائے اور گروہ میں پھونک مارنے والی جادو گرینوں(جادو گروں) کے شر سے اور ہر حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے اور ان طاق راتوں میں تلاش کرو لیلة القدر کو”یقینا” ہم نے اسے(قرآن) شب قدر میں نازل فرمایا۔ سورة اُلقدر کا مطالعہ کریں۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here