بظاہر یہ بات کتنی عجیب بلکہ ناقابلِ یقین لگتی ہے کہ وطنِ عزیز پاکستان میں پچھلے پچھتر سال سے، جمہوریت کے لبادے میں بادشاہت/ڈکٹیٹرشپ کا نظام قائم و دائم ہے۔ در حقیقت ہمارا یہ دوغلا نظام ہمیشہ ایک ایسا لباس زیبِ تن کیئے رکھتا ہے جو عقلمندوں کو تو فاخرانہ شاہی لباس نظر آتا ہے لیکن احمقوں کو چوکیداروں والا یونیفارم لگتا ہے۔ یہ جادوئی لباس ہمارے انگریز آقا تخلیق کر کے گئے تھے اور ہمارے ملک کی اشرافیہ آج تک اس کی دل و جان سے حفاظت کر رہی ہے۔ اشرافیہ کی اپنی حفاظت بیرونی آقاں کے ذمہ ہے کیونکہ ہماری خارجہ پالیسی کا کنٹرول ان آقاں کی چوہدراہٹ کیلئے ضروری ہے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی غیرموجودگی میں ہماری دولت کا بڑا حصہ اسی اشرافیہ کے ذریعے ان کی معیشت تک پہنچتا ہے۔پچھلے پچھتر سالوں میں مخلتف مواقع پر کچھ کوششیں ایسی ضرور ہوئیں کہ اس طلسماتی لباس سے پاکستان کو نجات دلائی جائے لیکن بدقسمتی سے یہ تاحال ممکن نہیں ہو سکا۔ ملک کی سب سے بڑی منظم مذہبی سیاسی پارٹی، جماعت اسلامی نے مختلف ادوار میں اس نظام کے خلاف عوامی تحریکیں چلائیں۔ فیض، جالب اور فراز جیسے نامور شعرا نے مثر انقلابی نظمیں لکھیں۔ چھوٹے صوبوں نے بڑی قربانیاں دیں۔ وقتا فوقتا کچھ سیاسی لیڈر بھی اس دوغلے نظامکے خلاف بولے۔ حسین شہید سہروردی اور محترمہ فاطمہ جناح نے بڑی جدوجہد کی۔ مشرقی پاکستان نے تو شیخ مجیب کی قیادت میں بغاوت کرکے ملک کو ہی دولخت کر دیا۔ اس سب کے باوجود، مقتدرہ نے کبھی بھی جمہوریت کو اپنی گود سے اتار کر آزادی سے پنپنے کا موقع نہیں دیا۔مقتدرہ نے کئی مرتبہ سول لباس ترک کرکے صرف یونیفارم میں براہِ راست حکمرانی بھی کی لیکن عوامی شعور کی بیداری سے ڈر کر اب کافی عرصے سے صرف سول لباس ہی زیبِ تن کیا ہوا ہے۔ یہ سول لباس والا فارمولا ویسے تو بالکل ٹھیک چل رہا تھا اور احمقوں کی تعداد بھی ملک میں بہت کم رہ گئی تھی لیکن پھر ایک خان صاحب نمودار ہوئے جنہوں نے اقتدار کے ایوانوں میں کچھ عرصہ گزار کر یہ راز پا لیا کہ ہمارا ملک تو ابھی تک حقیقی آزادی سے ناآشنا ہے۔ بادشاہ سلامت کو بھی جیسے ہی خان صاحب کو گود لینے کی اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے فوری تدارک کا آغاز کردیا لیکن COVID کی وبا نے خاصی دیر کروا دی۔ اس دوران، خان صاحب نے شاہی قبا کو آہستہ آہستہ ٹرانسپیرنٹ کرنا شروع کیا تو بادشاہ کا ننگا پن، آہستہ آہستہ زیادہ لوگوں کو نظر آنا شروع ہوگیا۔سائفر اور عدمِ اعتماد کے مرحلے میں خان کی پارٹی میں شامل، اسٹیبلشمنٹ کے لوگ بے نقاب ہوئے۔ اگلے مرحلے میں الیکشن کمیشن اور پھر عدلیہ کے چند عناصر نے اپنی اصلیت ظاہر کی۔ مئی کو بیوروکریسی اور پولیس حکام میں چھپے ہوئے لوگ بھی بڑی تعداد میں سامنے آگئے پھر نو مئی کے فالس فلیگ آپریشن نے تو حد ہی کردی۔ مفاد پرست غلام افراد کا آپریشن کلین اپ ہوگیا۔ نواز خاندان کی سپر فاسٹ ڈرائی کلیننگ اور خان کو دھڑا دھڑ سزائیں سنوا کر عدلیہ کا تو دھڑن تختہ ہی نکال دیا گیا۔ ناکام قاتلانہ حملوں کے ذریعے سکیورٹی ایجنسیز کی مکاریوں سے بھی پردہ اٹھ گیا۔ جب میڈیا اور جغادری صحافیوں کے بھیانک چہرے قوم کے سامنے آشکار ہوئے تو گھر گھر کہرام مچ گیا۔ موروثی سیاست تو پہلے بھی کافی حد تک بدنام تھی، ان دو سالوں میں تو اس نے اپنا منہ بالکل ہی کالا کر ڈالا۔اس سارے پراسس میں، سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی شعور کچھ اتنا تیزی سے بڑھا کہ ننگے بادشاہ کے لباس کی تعریف کرنے والیعقلمندوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہوتی گئی اور ہر طرف احمق اور جنونی ہی نظر آنا شروع ہوگئے جو جب چھوٹے بچوں کی طرح بادشاہ ننگا ہے کے نعرے بلند کرتے تو مقتدرہ کی پیشانیوں پر ناگواری کے اثرات واضح نظر آنے لگتے۔ بادشاہ سلامت نے بدحواسی میں مزید غلطیاں کرکے اپنے ننگے پن کو مزید آشکار کیا اور اب آٹھ فروری کے بعد تو ہر طرف یہی شور و غوغاہے کہ ہمارا اصل بادشاہ تو مغرب ہے۔مسلسل ایک نئے طلسماتی لباس بنانے کی جو کوشش بھی کی جاتی ہے، وہ رائیگاں چلی جاتی ہے۔ بیرونی آقا جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے بھی اپنی شناخت چھپانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔لاٹھی گولی کی سرکار بھی بے اثر ہو گئی ہے۔ اب تو صرف یہ دیکھناہے کہ ننگے پن کا یہ تماشا اب مزید کتنا عرصہ چلتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ نو فروری کے فارم کی نامعقولیت نے ایسی صورتحال پیدا کردی ہے کہ ننگے بادشاہ کیلئے اب جمہوریت کو گود لینا ممکن ہی نہیں رہا۔ کس کس کو اور کیسے یقین دلائیں کہ موجودہ نظام کے تحت رائے عامہ یا بنیادی حقوق کا احترام ممکن ہو سکے گا۔ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی مجبورا بادشاہ کو ننگا کہنا پڑ رہا ہے۔ جمہوری اقدار اور تصورات کا جنازہ اتنی دھوم سے نکلا ہے کہ اب ہر کوئی یہ حقیقت جان چکا ہے کہ کمرے میں موجود ہاتھی کو باہر نکالے بغیر، بیرونی آقاں سے حقیقی آزادی حاصل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی جمہوری نظام چل سکتا ہے۔ ہمارے سارے ادارے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ مافیا باسز کے چہروں پر چھائی مایوسی سے صورتحال کی سنگینی کا صاف اندازہ ہورہا ہے۔ ایسے میں ہماری دعا تو یہی ہے کہ معاملات جلد از جلد بہتر ہوں اور احمقانہ رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے چوکیدار اپنے اصل فرضِ منصبی تک ہی محدود ہوجائے۔ آمین۔
آخر میں جوش کا یہ بند حاضر ہے۔
وقت سے پہلے ہی آئی ہے قیامت دیکھیے
منہ کو ڈھانپے رو رہی ہے آدمیت دیکھیے
دور جا کر کس لیے تصویر عبرت دیکھیے
اپنے قبلہ جوش صاحب ہی کی حالت دیکھیے
اتنی گمبھیری پہ بھی مر مر کے جیتے ہیں جناب
سو جتن کرتے ہیں تو اک گھونٹ پیتے ہیں جناب
٭٭٭