کیا غلامی قوم کی تقدیر ہے؟

0
102
جاوید رانا

ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں اختتامی سطور میں عرض کیا تھاکہ مسائل و تنازعات کا حل اور دار و مدار ڈیلرز نہیں لیڈرز کے توسط سے ہے، ہماری یہ عرضداشت وطن عزیز کی سیاسی صورتحال ہی نہیں ہر شعبہ کے حوالے سے تھی کرکٹ اگرچہ ہمارا قومی کھیل نہ سہی لیکن ہر پاکستانی کے رگ و پے میں سانس کی طرح بسا ہوا ہے خصوصاً بھارت کیخلاف، بھارتی سرزمین پر اور وہ بھی بڑے ایونٹس کے حوالے سے زندگی اور موت کا مرحلہ ہوتا ہے، حالیہ ورلڈکپ میں بھارت، آسٹریلیا کے بعد افغانستان سے بدترین ہزیمت نے جہاں ساری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے ،وہیں کرکٹ کے ماہرین و مبصرین کے تجزئیے اور تبصرے اس حقیقت کو افشاء کر رہے ہیں کہ کرکٹ میں بھی کہیں نہ کہیں ڈیل کا عمل دخل موجود ہے، وہ مجبوری کے تحت ہے۔ آئی سی سی یا بھارتی بورڈ سے خوف کے تحت ہے یا پسند نا پسند، دوستی یا ناپسندیدگی کی وجہ سے ہے۔ افغانستان سے شکست نے پوری قوم کو تو نا امیدی مایوسی میں دھکیلا ہی ہے دنیا بھر میں جس ذلت و رُسوائی سے دوچار کیا ہے ،اس کی کوئی تلافی نظر نہیں آتی۔ بڑے بڑے دعوئوں کے برعکس بیٹنگ، بائولنگ، فیلڈنگ حتیٰ کہ باڈی لینگوئج تک اس بات کا اظہار ہے کہ حقدار حق سے محروم ہیں اور نا حقوں کو پسند اور تعلق و دوستی کی بنیاد پر سلیکٹ کرنا معیار ہے۔ نتیجہ سامنے ہے کہ دنیا کا نمبر ایک بلے باز کپتانی کے بوجھ تلے دب کر بیٹنگ کو متاثر کر رہا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ڈیل کے ذریعے لیڈر کی پالیسی پر کام چلایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بہترین بلے باز کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے اور غلط منصوبہ بندی کھیل کے معیار کو بھی تنزلی پر لا رہی ہے اور ناکامیاں مقدر بن رہی ہیں کہ افغانستان کی ٹیم بھی جس کی تربیت بھی پاکستان میں ہوئی ہمارے خلاف فتح یاب ہو رہی ہے۔ وطن عزیز میں یہ شور کلجگ کھیل ہی نہیں ہر شعبۂ حیات میں ہے اور اس برائی کا اصل منبع سیاست و قیادت کا خود غرضانہ و مفاداتی کھیل ہے کہ جس میں ہر کام کسی ڈیل کے تحت ہی ہوتا ہے، چار سال تک پلیٹ لیٹس کا علاج کرنے کے بعد مرگی کے مرض کا انکشاف ہوتا ہے اور جوتا (وہ بھی فوجی) سنگھانے پر مریض چنگا بھلا ہوتا ہے۔ نہ صرف چنگا ہو جاتا ہے بلکہ اس کے اگلے پچھلے سارے جُرم بھی معاف ہو جاتے ہیں اور اسے قوم کی نیابت کیلئے بھی موزوں و مستحق قرار دیدیا جاتا ہے قطع نظر اس حقیقت کے کہ قوم میں وہ مقبول ہے بھی یا نہیں۔ اس کی سہولت کیلئے تمام آئینی، قانونی، انتظامی و سیکیورٹی حتیٰ کہ طبی معیار اور اصول بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی سرکاری حیثیت یا مرتبے کے حامل نہ ہونے کے باوجود سرکاری پروٹوکول دیا جاتا ہے، ریاستی و حکومتی انتظامات و 20 ہزار پولیس فورس اور آٹھ ہزار سادہ لباس اہلکاروں کی سیکیورٹی کے زیر تحت جلسہ و خطاب کا اہتمام کیا جاتا ہے تو دوسری جانب کامیابی دکھانے کیلئے نہ صرف کراچی سے خنجراب تک ٹرینوں، بسوں کا سرکاری اہتمام کیا جاتا ہے بلکہ محنت کشوں، مزدوروں کو ہزار روپے کی دھاڑی پر جلسہ گاہ لایا جاتا ہے جو انہیں ملتی بھی نہیں، ان محنت کشوں کی آہ و بکاء بھی انہیں ان کی دیہاڑی نہیں دلا سکتی ہے۔ آخر یہ کون ہے یہ وہ شخص ہے جس کی ساری سیاست ڈیل اور ڈھیل کے گرد ہی گُھومتی رہی ہے اور آج بھی حکمرانوں سے ڈیل کے طفیل ایک بار پھر لُوٹ کھسوٹ اور اقتدار کے مزے لُوٹنا چاہتا ہے۔ قارئین بخوبی سمجھ سکتے ہیں یہ کون ہے کہ عوام اور جمہور کی سپورٹ کے بغیر بھی ہمیشہ نوازا جاتا رہا ہے۔
اس قحط الرجال میں ایک جانب تو متذکرہ صورتحال ہے تو دوسری جانب عوام کا وہ حقیقی لیڈر ہے جو عوام کے قلب و روح میں جانگزیں ہے بلکہ ہر طرح کی ریاستی، حکومتی، عدالتی و حراستی نا انصافیوں، سختیوں، متشددانہ کارروائیوں کے باوجود اپنے عزم و ارادوں میں مستحکم ہے اور اظہار و ابلاغ کی تمام تر پابندیوں اور سختیوں کے باوجود عوام کا قائد اور محبوب ترین ر ہنما ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نواز کے تمام تر ریاستی، حکومتی سپورٹ اور ڈیل کے تحت واپس آنے کے بعد بھی تازہ ترین سرویز کے مطابق عمران خان کی مقبولیت اور حمایت مزید بڑھ چکی ہے۔ عمران خان پر 9مئی کے اور سائفر کیسز کے حوالے سے ہر وہ طریقہ اور استدلال آزمایا جا رہا ہے جس کی وساطت سے عمران خان کو نہ صرف انتخابی پراسس سے خارج کر دیا جائے بلکہ اسے اسٹیبلشمنٹ سے متحارب ہونے کے سبب کڑی سے کڑی سزا دینے کا اقدام کیا جائے 9 مئی کے حوالے سے سویلینز کے کیسز فوجی عدالتوں میں چلانے کے کھڑاک کو تو سپریم کورٹ نے اپنے حکم و فیصلے سے غتربود کر دیا ہے لیکن سائفر کیس میں عمران پر فرد جرم عائد کر کے جو دفعات عائد کی گئی ہیں ان کے تحت سزا کی انتہائی حد سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ اُدھر اسلام آباد ہائیکورٹ میں اسی حوالے سے پی ٹی آئی درخواست پر فیصلہ محفوظ ہے اور ہماری اس تحریر تک سنایا نہیں جا سکا ہے۔
متذکرہ بالا سطور کی روشنی میں مجموعی طور پر ایک حقیقت واضح ہے کہ وطن ایسے دور کلجگ کا شکار ہے جہاں کوئی میرٹ نظر نہیں آتی، اور سارا نظام خواہشات، من مانی اور مفادات کی بنیاد پر نیز مقتدرین کی منشاء ومرضی کے مطابق چل رہا ہے جہاں تک سیاسی صورتحال کا تعلق ہے ہمیں تو اب یقین ہو چلا ہے کہ بیرونی آقا انکل سام کی مرضی کے مطابق لندن پلان اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے اور اس کی کٹھ پتلیاں عمل پیرائی کی تکمیل کیلئے انتخابات سے بھی تاخیر کرینگی اور ان کے مقاصد میں حائل تمام رکاوٹوں کو دُور کرنے کی تمام کوششیں کرینگی لیکن کیا پاکستانی قوم اتنی بے حس و مجبور ہوگئی ہے کہ غلامی کو قبول کر لے گی۔ علامہ نے کہا تھا!
غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ تقدیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here