حضرت امام محمد باقر کی تاریخ ولادت کے بارے مختلف اقوال ہیں لیکن مستند صحیح یہ ہے کہ آپ کی ولادت یکم رجب اپمرجب 57 ھ کو ہوئی۔آپ کا دور بھی مثل اپنے پدر بزرگوار کے وہی عبوری حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پیدا شدہ اثرات کی بنا پر بنی اُمیہ کی سلطنت کو ہچکولے لگ رہے تھے مگر تقریبا ایک صدی کی سلطنت کا استحکام ان کو سنبھال لیتا تھا بلکہ فتوحات کے اعتبار سے سلطنت کے دائرہ کو عالم اسلام میں وسیع تر کرتا جاتا تھا۔ حضرت امام محمد باقر خود واقعہ کربلا میں موجود تھے اور گو طفولیت کا دورتھا یعنی آپکی چار پانچ برس کے درمیان عمر تھی۔ مگر اس واقعہ کے اثرات اتنے شدید تھے کہ عام بشری حیثیت سے بھی کوئی بچہ علیحدہ نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ نفوس جو مبدا فیض سے غیر معمولی ادراک لے کر آئے تھے وہ اس کم عمری میں جناب سکینہ اور دیگر بچوں کے ساتھ ساتھ یقینا قید و بند کی صعوبتوں میں شریک و شامل تھے۔ اس صورت میں انسانی و دینی جذبات کے ماتحت آپ کو بنی امیہ کے خلاف جتنی برہمی ہوتی وہ ظاہر و آشکار ہے۔ چنانچہ آپ کے بھائی زید بن علی ابن الحسین نے ایک وقت ایسا آیا کہ بنی اُمیہ کے مقابلے میں تلوار اٹھائی ۔ اسی طرح سادات حسینی میں سے متعدد حضرات وقتا فوقتا بنی اُمیہ کے خلاف قیام کرتے رہے حالانکہ واقعہ کربلا سے براہ راست جتنا تعلق حضرت امام محمد باقر کو رہا تھا اتنا جناب زید ع کو بھی نہ تھا۔
حسنی سادات کا جذبات سے بلند ہونا تھا کہ آپ کی طرف سے کبھی کوئی اس قسم کی کوشش نہیں ہوئی اور آپ کبھی کسی ایسی تحریک سے وابستہ نہیں ہوئے بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنے دور کی حکومت کو مفاد اسلام کے تحفظ کے لئے اسی طرح مشورے دئیے جس طرح آپ کے جد اعلیٰ حضرت علی ابن ابی طالب اپنے دور کی حکومتوں کو دیتے رہے تھے۔ چنانچہ رومی سکوں کی بجائے اسلام سکہ آپ ہی کے مشورہ سے رائج ہوا جس کی وجہ سے مسلمان اپنے معاشیات میں دوسروں کے دست نگر نہیں رہے۔
باوجود اس کیکہ آپکو زمانہ آپ کے والد بزرگوار حضرت امام زین العابدین کے زمانہ سے بہتر ملا یعنی اس وقت مسلمانوں کا خوف و دہشت اہل بیت کے ساتھ وابستگی میں کچھ کم ہو گیا تھا اور ان میں علوم اہل بیت سے گرویدگی کی بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پیدا ہو گئی تھی ۔کوئی دوسرا ہوتا تو اس علمی مرجعیت کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا لیتا مگر ایسا نہیں ہوا اور حضرت امام محمد باقر مسلمانوں کے درمیان ایک طرح کی مرجعیت عام حاصل ہونے کے باوجود آلودہ سیاست سے کنارہ کشی میں اپنے والد بزرگوار کے قدم با قدم ہی رہے،بے شک زمانہ کی سازگاری سے آپ نے واقعہ کربلا کے تذکروں کی اشاعت میں فائدہ اٹھایا ۔ اب واقعہ کربلا پر اشعار نظم کئے جانے لگے اور پڑھے جانے لگے اور باقاعدہ عزاداری ایک انقلابی تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔(جاری ہے)
امام زین العابدین کا گریہ آپ کی ذات تک محدود تھا اور اب دوسروں کو ترغیب تشویق بھی کی جانے لگی۔ اس کے علاوہ نشر علوم آل محمد کے فریضہ کو کھل کر انجام دیا گیا۔ اور دنیا کے صفحہ تاریخ پر علمی جلالت کی دھاک بٹھا دی ۔ یہاں تک کہ مخالفین بھی آپ کو باقر العلوم ماننے پر مجبور ہوئے ۔حالانکہ یہ ذکر زبور میں تھا ۔جس کا مفہوم ہی ہے علوم کے اسرار و رموز کو ظاہر وآشکار کرنے والے اس طرح ثابت کر دیا کہ آپ اپنے کردار میں علی ابن ابن ابیطالب کے صحیح جانشین ہیں۔ جنہوں نے پچیس برس تک سلطنت اسلامیہ کے بارے میں اپنے حق کے ہاتھ سے جانے پر صبر کرتے ہوئے صرف علوم و معارف اسلامیہ کے تحفظ کا کام انجام دیا۔ وہی ورثہ تھا جو سینہ بہ سینہ حضرت امام محمد باقر تک پہنچا تھا، نہ زمانہ کی چیرہ دستیوں نے اس رنگ کو مدہم بنایا تھا۔ نہ تسلسل مظالم کے اثر سے انتقامی جذبات کے غلبہ نے ان کو بنیادی مقاصد حیات بے توجہ کیا۔
معجزات امام محمد باقر علیہ السلام
ابو بصیر روایت کرتے ہیں کہ ہم امام محمد باقر کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے اور لو گ مسجد میں آ جا رہے تھے۔ حضرت نے مجھ سے فرمایا ! ذرا لوگوں سے پوچھو کہ وہ امام کو دیکھ رہے ہیں؟ پس جس شخص سے پوچھتا کہ آیا تم نے ابو جعفر ع کو دیکھا ہے وہ کہتا نہیں۔ حالانکہ حضرت وہیں کھڑے تھے یہاں تک کہ ابو ہارون مکفوف ( نابینا) مسجد میں داخل ہوئے حضرت نے فرمایا !اس سے پوچھو میں نے اس سے جا کر پوچھا کہ تم نے ابو جعفر کو دیکھا ہے ؟ انہوں نے کہا کیا یہ آنحضرت نہیں کھڑے ہیں ؟ میں نے کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہنے لگے کیسے معلوم نہ ہو ؟ آپ تو نور درخشندہ ہیں۔
محمد بن سلیمان نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ ایک شامی جس کی رہائش مدینہ میں تھی۔ حضرت امام محمد باقر کی خدمت میں آیا جایا کرتا تھا اور آپ کی صحبت میں آ کر بیٹھا کرتا تھا۔ ایک دن آپ سے کہنے لگا اے محمد ! آپ کی مجلس میں مجھے شرم آتی ہے۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ مجھ سے زیادہ اہل بیت سے دشمنی رکھنے والا روئے زمین پر کوئی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی دشمنی میں خدا و رسول ا ور امیرالمومنین کی اطاعت ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ آپ صاحب فصاحت و بلاغت ہیں۔ ادب اور حسن کلام میں امتیازی شان رکھتے ہیں اور میرا یہ آنا جانا اس وجہ سے ہوتا ہے۔ حضرت امام باقر نے اس کے لئے اچھے الفاظ استعمال کئے اور فرمایا ! خدا سے کوئی شئے پوشیدہ نہیں۔ کچھ دنوں کے بعد وہ شامی بیمار ہو گیا۔ جب بیماری بڑھ گئی تو اپنے قریبی عزیز سے کہا کہ تم مجھ پر کپڑا ڈال دو تو امام باقر کو بلانا اور ان سے درخواست کرنا کہ میرے جنازے کی نماز پڑھا دیں اور امام ع کو یہ بھی بتلا دینا کہ مجھے مریض نے حکم دیا ہے۔
عزیزوں کو یقین ہو گیا جسم ٹھنڈا ہو گیا اور مر چکا ہے۔ جب صبح ہوئی تو اس کا وارث مسجد میں آیا اور حضرت نماز سے فارغ ہو چکے تھے۔ تو اس شخص نے عرض کیا کہ شامی فوت ہو گیا ہے۔ اس کی درخواست تھی کہ آپ اس کی جنازہ پڑھائیں۔ آپ نے کہا ہر گز نہیں شام کا علاقہ ٹھنڈا ہے اور حجاز میں سخت گرمی پڑتی ہے۔ جاو اس کے دفن میں جلدی نہ کرنا ۔پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور سجدہ میں چلے گئے۔ حتی کہ سورج نکل آیا پھر اس شامی کے مکان پر تشریف لے گئے ۔ آواز دی تو اس نے جواب دیا ۔امام ع اس کے پاس گئے اور سہارا دے کر بٹھایا اور ستو منگوا کر اسے پلایا اور اہل خانہ کو فرمایا ! اسے شکم سیر کرو اور ٹھنڈی غذا دو۔ اس کے سینہ کو ٹھنڈک پہنچاو۔ اس کے بعد آپ تشریف لے آئے۔
ابھی کچھ عرصہ نہ گزرا تھا کہ وہ شامی تندرست ہو گیا۔ اور حاضر خدمت امام ہوا ۔ کہنے لگا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کی مخلوق پر حجت اور باب اللہ اس کا وہ دروازہ ہیں جو آنے کا صحیح راستہ ہے۔ جو شخص آپ کے سوا کسی دوسرے دروازے سے آئے گا وہ نامراد اور گھاٹے میں رہے گا۔ حضرت امام نے پوچھا کہ تجھ پر کیا گزری تو کہنے لگا میں گواہی دیتا ہوں ۔ میری روح اس سے باخبر ہے۔ یعنی جانتا ہوں اور میں نے آنکھوں سے بھی دیکھا ہے اور انہوں نے مجھے حیرت میں نہیں ڈالا۔ آواز دینے والے کو میں نے اپنے کانوں سے کہتے سنا جب میں نیند کے عالم میں بھی نہ تھا کہ اس کی روح لوٹا دو کہ اس کے لئے ہم سے جناب امام محمد بن علی نے اس بارے میں سوال کیا۔ اس پر حضرت امام باقر نے فرمایا ! تجھے معلوم نہیں خدا اپنے بندے کو دوست رکھتا ہے اور اس کے عمل کو دوست رکھتا ہے۔ پھر وہ شخص حضرت کے اصحاب میں داخل ہو گیا ۔
سدیر نے کہا کہ میں ایک دفعہ امام محمد باقر کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک یمنی آیا تو آپ نے یمن کے بارے میں پوچھنا شروع کیا۔ تم یمن میں فلاں فلاں گھر جانتے ہو ۔ کہا میں نے وہاں اس گھر کو دیکھا ہوا ہے۔ پھر فرمایا ! اس گھر کے پاس ایک چٹان ہے کیا تم اس سے واقف ہو ؟ یمنی نے کہا آپ سے زیادہ شہروں کے حالات کا جاننے والا کسی کو نہ دیکھا ہے۔ یمنی جب جانے کو کھڑا ہوا تو امام نے فرمایا ! اے ابوالفضل یہی وہ چٹان ہے کہ حضرت موسی نے غصہ کی حالت میں توریت کی تختیاں پھینک دی تھیں لیکن چٹان نے توریت کا کوئی حصہ ضائع نہیں کیا ۔ یہ تختیاں رسول اکرم کی طرف آئیں جو اب ہمارے پاس ہیں۔باقی آئندہ ان شااللہ تعالیٰ۔
٭٭٭