توشہ خانہ عالمی مسئلہ ہے،برطانوی رپورٹ

0
10

لندن(پاکستان نیوز) توشہ خانہ صرف پاکستان کا نہیں، عالمی مسئلہ ہے ،پاکستان میں عمران خان سمیت متعدد حکمرانوں کو توشہ خانہ کے مقدمات کا سامنا ہے ،برطانوی وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر اور ان کی اہلیہ وکٹوریہ بھی تنقید کی زد میں ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان سمیت متعدد حکمرانوں کو سرکاری دفتر میں رہتے ہوئے اپنے اور اپنے خاندان کے افراد کیلیے تحائف قبول کرنے کی وجہ سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ عمران خان پر تو سرکاری توشہ خانہ سے تحائف لے جانے پر ایک کے بعد دوسرا ریفرنس بھی قائم کر دیا گیا ہے ۔یہاں یہ بتانا مقصد ہے کہ چاہے امریکہ کے صدر کی بیگم یعنی خاتون اول ہوں یا 10 ڈاوننگ سٹریٹ میں رہنے والے برطانوی وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کا طرز عمل دنیا بھر میں سرکاری حیثیت میں رہتے ہوئے تحائف وصول کرنے پر بحث رہتی ہے ۔ رپورٹ میں برطانوی نشریاتی ادارے نے عالمی رہنمائوں اور ان کی شریک حیات کے بارے میں سرکاری تحائف اور عطیات سے متعلق جاننے کی کوشش کی ہے ۔برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے حال ہی میں بتایا کہ وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر اور اہلیہ وکٹوریہ نے لباس کے عطیات کو قبول کیا تاکہ وہ برطانیہ کی نمائندگی کرنے کیلیے بہترین انداز میں نظر آئیں۔عطیات کے بارے میں پوچھے جانے پر خارجہ سیکرٹری نے کہا دیگر ممالک کے پاس اپنے لیڈروں کے لباس کیلیے ٹیکس دہندگان کی مالی اعانت سے بھرپور بجٹ موجود ہوتے ہیں۔کچھ ممالک میں ٹیکس دہندگان اپنے رہنمائوں کے رہنے کے اخراجات میں حصہ ڈالتے ہیں اور اس میں ان کے ملبوسات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔امریکی صدور کے اخراجات کا بجٹ تقریبا 50ہزار امریکی ڈالر ہے جس کا وہ کپڑے اور دیگر اشیا کی خریداری کیلیے استعمال کر سکتے ہیں۔ان کی تنخواہ سالانہ چار لاکھ امریکی ڈالر ہے لیکن امریکی صدر کی شریک حیات جنہیں خاتون اول کہا جاتا ہے ان کیلیے سالانہ تنخواہ یا مقررہ اخراجات کا بجٹ نہیں ہوتا ہے اگرچہ ان کے پاس عملہ اور دفتر ہوتا ہے ۔ایسے میں امریکی خاتون اول کے فیشن پر لوگوں کی نظریں رہتی ہیں اور انہیں یہ جاننے کی خواہش ہوتی ہے کہ آخر ان کے مہنگے لباس کیلیے پیسے کہاں سے آتے ہیں۔قابل ذکر مثالوں میں ملانیا ٹرمپ کی زارا جیکٹ تھی جس پر آئی ریئلی ڈونٹ کیئر، ڈو یو یعنی مجھے ذرا بھی پروا نہیں ، کیا آپ کو ہے ،لکھا ہوا تھا اور اسے انہوں نے اس وقت زیب تن کیا تھا جب وہ تارکین وطن کے حراستی مرکز کے دورے پر تھیں۔اسی طرح سابق چینی صدر ہوجن تائو سے ملاقات کے دوران مشیل اوباما نے جو سرخ رنگ کا الیگزینڈر میک کیوین کا لباس زیب تن کر رکھا تھا اس نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی تھی۔جارج ڈبلیو بش کی اہلیہ لارا بش نے 2010 میں شائع ہونے والی اپنی یادداشت میں لکھا کہ وہ ڈیزائنر لباس کی بڑی تعداد سے حیران رہ گئیں کیونکہ ان سے توقع کی جا رہی تھی وہ خاتون اول کے طور پر فیشن ایبل نظر آنے کیلیے انہیں خریدیں۔مشال اوباما کی پریس سیکرٹری جوانا روشلم نے 2014 میں سی این بی سی کو بتایا: مسز اوباما اپنے لباس کی خود ادائیگی کرتی ہیں لیکن امریکی خاتون اول بھی حکومت کی جانب سے تحفے کے طورپر کپڑے قبول کر سکتی ہیں۔سمیتھسونین میوزیم میں اس وقت موجودہ خاتون اول جل بائیڈن کے اس لباس کو بھی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو انہوں نے 2021 کی ایک تقریب میں پہنا تھا۔ اس تقریب میں ان کے شوہر جو بائیڈن بھی تھے ۔ ڈیزائنر الیگزینڈریا اونیل نے جل بائیڈن کے اعزاز میں اس تقریب کا اہتمام کیا تھاجس سے پتہ چلتا ہے یہ لباس انہیں ڈیزائنر کی طرف سے ملا تھا۔اس کے برعکس ان کی پیشرو میلانیا ٹرمپ کوافتتاحی تقریب کا لباس ان کے شوہر جو امریکی تاریخ میں امیر ترین صدر ہیں کی طرف سے تحفے میں ملا تھا جسے خود ہیوے پیئر نے ڈیزائن کیا تھا۔ اسکی وجہ یہ ہو سکتی ہے انہوں نے اس کیلیے پیسے دیے تھے ۔ سابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن برائون کی اہلیہ سارہ برائون نے اپنی کتاب بیہائنڈ دی بلیک ڈور میں ڈائوننگ سٹریٹ میں رہتے ہوئے لباس و دیگر تحائف قبول کرنے میں درپیش مشکلات کے بارے میں بتایا ہے ۔دنیا کے دیگر رہنمائوں کی شریک حیات عام طور پراپنے طرز انتخاب کیلیے عطیات پر انحصار کرتے دکھائی دیتی ہیں۔فرانس کی بریگزٹ میکرون کے پاس کپڑوں کیلیے سرکاری بجٹ نہیں اور خیال کیا جاتا ہے انہیں پیرس کے اعلی فیشن ہاسز جیسے لوئی ووٹن کپڑے تحفے میں دیتے ہیں۔2019 میں لکھی گئی اپنی کتاب Madame La Presidente میں انہوں نے لکھا ان کا دفتر اس بات کا ریکارڈ رکھتا ہے کہ انہیں کون سے کپڑے عطیہ کیے گئے ہیں اور کون سے ان کے اپنے ہیں لیکن ان کے شوہر صدر ایمانویل میکرون کو ان کی فضول خرچی پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔جرمنی میں وزرا کو 2023 کے پہلے چھ مہینوں میں ہیئر ڈریسرز، میک اپ آرٹسٹوں اور فوٹوگرافروں پر450,000 یورو خرچ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا، حالانکہ ایسا لگتا ہے لباس کیلیے کوئی مخصوص فنڈ نہیں ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here