ہندوستان اور پاکستان میں جتنی زیارتیں ہیں اور ان پر منتیں مانگنے والے ہیں شاید دنیا میں کسی مسلم مالک میں نہیں۔ اور لوگ ان پر جو چڑھاوے چڑھاتے ہیں ان کا کوئی حساب نہیں کہا جاتا ہے جو سال ودولت ان مزاراروں پر چڑھائی جاتی ہے اس کا کوئی حساب نہیں ٹنوں کے حساب سے ہے جن کی گنتی کرنا دشوار ہوتا ہے ہم کئی مسلم ممالک میں ہو کر آئے کہیں ایسا نہیں اب ہم دونوں ملکوں کی زیارتوں کی تعداد بمعہ نام کے ساتھ بتاتے ہیں۔ آپ گنتے جائیے۔ صوفی شرائن، مزاو، داتا دربار، لاہور، لعل شہباز قلندر، سہیون شریف، عبداللہ شاہ غازی کراچی، بہائوالدین زکریا ملتان، شاہ رکن عالم ملتان، شاہ لطیف بٹھائی بھٹ شاہ، سچل مسرست خیرپور، بڑے امام اسلام آباد، پیر مہر علی شاہ گولڑا شریف(مقبرہ) ابھی حال ہی میں ایک اور مانے جانے بزرگ اور نیک انسان کا مقبرہ جام شورو میں جہاں ہائی وے حیدر آباد میں ملتا ہے ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں صاحب کا ہے۔ علاوہ اس کے کئی جانے پہچانے نام ہیں۔ جن کی باتیں اور حکایتیں عرف عام ہیں۔ اور وزنی بھی پیر بلھے شاہ جو اپنی پنجابی شاعری اور حکایتوں کے لئے مشہور ہیں۔ یہ صوفی خطرات تھے اور آنے جانے والوں کو بتاتے تھے کیا درست ہے اور کیا غلط بلھے شاہ کہتے ہیں بلھیا کی جانا میں کون، ایک نقطہ وچ گل مکدی ہے، بلھے شاہ کی سراغ حیات پڑھنے کے قابل ہے۔ بلھے شاہ کہتے ہیں ”ہر خون وچ وفا نہیں ہوندی بلھیا
نسلاں دیکھ کے یار بنایا کر
پھر کہتے ہیں ، حرام وی پیتی جاندے او
نمازاں وی نیتی جاندے او
اور سب سے اہم اور آج کے وقت میں پاکستان کے لوگوں پر فٹ ہونے والی شاعری یہ ہے
پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں تو نام رکھ لیا فاضی
ہتھ وچ پھڑکے تلوار نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا نے نام رکھ لیا حاجی
اوبھلیا حاصل کی کیتا؟ جے تو رب نہ کیتا راضی
بلھے شاہ کی شاعری ہم پاکستانیوں سے مخاطب ہے اور انہیں چیلنج کیا ہے انہیں بتایا ہے کہ جو تم کر رہے ہو وہ بالکل، غلط اور دھوکہ بازی ہے اور اگر ہم قرآن اور رسول کی بات نہ مان سکیں تو سیدھی سادی بلھے شاہ کی بات سمجھ لیں۔ ویسے تو ہر صوفی پیر نے کہا ہے اور سمجھایا ہے لیکن پہلے کا دور اچھا تھا وقت تھا ایک دوسرے سے بات کرناے کا سمجھنے کا اور غلطیوں پر ٹوکنے کا، حکمرانی تھی لیکن تلوار بازی دور تھی۔ جب حکمران عوام کو دشمن نہیں سمجھتے تھے حکمرانی کرنا اپنا حق سمجھتے تھے لیکن انصاف مہیا کرتے تھے کسی شہنشاہ کا دور لے لیں ایسا نہیں تھا جو آج ہے۔
انڈیا میں بھی۔ صوفی پیر آئے ان کے مقبرے جگہ جگہ ہیں نام دیئے دیتے ہیں۔ اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی، دہلی میں میں حضرت نظام الدین کی درگاہ، دہلی میں ہی قطب الدین بختیار کاکی، روڑکی میں کلیر شریف کے مقام پر درگاہ عطاء الدین صابر کلیر شریف بمبئی میں حاجی علی درگاہ بمبئی میں ہی مخدوم علی ماہیمی، کرنا ٹک میں خواجہ بندے نواز گلبرگا تامل ناڈو میں ناگور درگاہ، سید عبداللہ شاہ کرمانی کی درگاہ ولسٹ بنگال میں خوتتگری بیربھم میں ہم درگاہوں پر جاکر منتیں نہیں مانگتے بس دیکھنے جاتے ہیں ان کا جاہ وجلال۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سینکڑوں کی تعداد میں منتیں مانگنے کے ذرائع ہیں۔ ایسا کیوں ہے اس کی وجہ غربت ہے کہ غریبوں کے وسائل اتنے نہیں کہ علاج کراسکیں۔ مرض کی دعائیں مانگتے ہیں یہاں ڈاکٹر کہتا ہے عبادت ضرور کرو لیکن پہلے علاج، یہودی، کرسچیں، اور ہندو سب دعا مانگتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ دعائیں بھی کرتے ہیں۔ اللہ نے جیسے شفا دینا ہوتی ہے ڈاکٹر کے ہاتھ میں علاج دیتا ہے آپ نے سنا ہوگا فلاں ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا ہے لیکن دعا صرف اور صرف اللہ سے ہی مانگنی ہے۔ غزہ میں پچھلے سالوں سے جو کچھ ہو رہا ہے اس میں کیا بات ہے کہ اب تک ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ قتل ہوچکے ہیں دو موذی مل کر نہتے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں احتجاج ہو رہا ہے دعائیں مانگی جا رہی ہیں لیکن کچھ نہیں ہو رہا اسرائیل جنگ بندی کرتا ہے لیکن جنگ بندی میں بھی وہ روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کا قتل عام کرتا ہے۔ ضروری ہے ان سے مقابلہ کرنا ہے تو ہتھیار لائو اور لڑو اسرائیل زمین پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور فلسطینیوں کو مار بھگانا چاہتا ہے امریکہ اس کی مدد کر رہا ہے اور بدنام ہو رہا ہے دنیا بھر اُسے برا کہہ رہی ہے اُسے اسکی پرواہ نہیں۔ پھر وہ جب یہ کر چکتا ہے تو جنگ بندی کر لیتا ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ کرسچیں اور یہودیوں کی طاقت ہے اور وہ مسلمانوں کو اپنی غلامی میں لینا چاہتے ہیں۔ اور ایسا ہوچکا ہے مڈل ایسٹ، سعودی عربیا اور لیبیا عراق شام نہتے اور کمزور ہیں۔ اور امریکہ جہاں تیل ہے اور پیسہ ہے اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے پچھلے ٹرمپ میں، ٹرمپ نے دوہا، ابودہابی، سعودی عرب سے کیا کچھ نہیں کیا لیکن اب بھی بہت کچھ چھپٹنے کے چکر میں ہے اور یہ کام جاری رہے گا اس لئے کہ امریکہ کے بیورو کریٹ لٹیرے، لالچی اور عوام کو دن رات لوٹ رہے ہیں کارپوریشن کی کارکردگی دیکھیں کہ کس طرح وہ امریکی عوام کی جیبیں خالی کر رہے ہیں۔ لاکھوں ٹنوں ڈالرز ہیں لیکن ہیلتھ کیر نظام میں کیسے کیسے حربے استعمال کرکے لوٹ رہے ہیں۔ انشورنس کمپنیاں بھی ان کی اور نظام بھی ان کا کیا ایسا پہلے تھا۔ ہرگز نہیں، لوگ بڑوں کی باتیں سنتے تھے انہیں خدا کا خوف تھا وہ ڈرتے تھے اب ایسا نہیں ہے ان کا مذہب ڈھکو مسئلہ ہے۔ کچھ نہیں سکھاتا، ایسا ہی ہمارا مذہب ہے جس پر کوئی نہیں چلتا۔ خدا ہے لیکن کسی کو ڈر نہیں مرنا ہے لیکن دیکھا جائے گا۔ سال بنا لو، دوسرے کا حق لے لو اور بس یہ کام اور عمل ہر مذہب میں جاری ہے۔کہیں بھی چلے جائیں یہ ہی ہے پہلے زیادہ پرانی بات نہیں ٥٠ سال پہلے ہر چیز کی قیمتیں مناسب تھیں لگتا نہیں تھا کہ جیب کاٹ لی جائے گی۔ لیکن اب ایسا نہیں۔اور اگر آج یہ پیر فقیر ہوتے تو اُن کی کوئی نہ سنتا۔ ایسا ہے کہ فقیر دعا کرتا ہے دس میں سے دو اچھے ہو جاتے ہیں۔ یا کام بن جاتا ہے اور لوگ تعریف کرنے لگتے ہیں اب یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟
٭٭٭٭٭













