آج کا کیوبا؟ عوام خوش!!!

0
89
کامل احمر

ایک خواب تھا کہ دیکھیں کیوبا اور وہاں کے عوام کو، ملک اللہ بخش جنہیں ہم آگے اے، بی کہینگے کا اصرار تھا کسی ٹور کمپنی کے بغیر سفر کریں۔ عرصہ سے ہمارے ارادے بنتے اور بگڑتے رہے اور اے بی دنیا گھومتے رہے۔ سائوتھ امریکہ سے مراکو ترکی اور تھائی لینڈ انہیں تھائی لینڈ اور میکسیکو بہت بھایا بیگمات نہ پڑھیں تو صرف اتنا لکھنا کافی ہے بہت اچھا لگا لوگ اچھے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن کیوبا خود سے سفر کرنا تجربہ تھا ہم نے وعدہ کیا تھا اسپین ہو آئیں اگلا سفر ہم تمہارے ساتھ کرینگے بیگم سے اجازت ضروری تھی شاید وہ جانتی تھیں کہ کیوبا قریب ہے اور وہاں زیادہ کچھ نہیں ہے اور ساتھ بھی اچھا ہے۔ لہذا اے بی کے کہنے پر ہم نے بھی فلائٹ بک کرلی۔ ویزا کہاں ملے گا امریکن ایرلائن نے بتایا میامی میں یہ بھی کہہ دیا کوئی مسئلہ نہیں ہم نے اے بی کے مطابق اون لائن پر بھی ایپلائی کردیا ویزہ فیس50ڈالر کے علاوہDHLچارجنیر اور انکی فیس جو کریڈٹ کارڈ سے ادا کر دی گئی لیکن ویزہ ہماری روانگی کے بعد آیا ہم میامی آچکے تھے وہاںAAکائونٹر پر گئے جہاں سے تین گھنٹے بعد کیوبا کے لئے ڈیڑھ گھنٹے کی فلائٹ تھی۔ دو منٹ لگے کائونٹر پر بیٹھی محترمہ شاید کیو بن تھی نے سو ڈالر مانگے آدھا اسکا اور آدھا کیوبا کا اطمینان کیا کہ ہم تو کیوبا کے لوگوں کی مدد کو جارہے ہیں۔ یہ بھی کار ثواب ہے جب امریکہ خود بھوکا رہ سکتا ہے اور عوام کی ضروریات کو چھوڑ کر یوکرائن کو بلین بلین ڈالرز زیلینکی کی ایک مسکراہٹ پردے سکتا اور علاوہ بہت کچھ تو ہم بھی اپنی جیب سے کچھ نکال کر دے سکتے ہیں۔ ہم نے اس ویزہ کی وجہ سے فلائٹ جلدی کروائی کہیں میامی میں ویزہ کائونٹر ڈھونڈتے ڈھونڈتے فلائٹ نہ نکل جائے۔ میامی میں اے بی کو ہم سے جڑنا تھا وہاں سے ساڑھے تین بجے کی فلائٹ لینی تھی۔ وقت کے مطابق اے بی(ملک اللہ بخش صاحب) کا مسکراتا چہرہ نظر آیا اطمینان ہوا اب ہم میامی سے کیوبا کے لئے روانہ ہونگے انہوں نے آتے ہی کہا تمہارے لئے سرپرائز ہے۔”کیا ہوسکتا ہے” ہم نے سوچا اور یقین مانیئے یہ سفر میں سب سے بڑا سرپرائز تھا کرسیوں کے دوسری جانب دوسری طرف منہ کئے ایک جانے پہچانے صاحب تھے نیویارک کی ہر دلعزیز تمام حلقوں کے مختلف قسم کے لوگوں میں پسندیدہ اب لگا کر یہ سفر ابن بطوطہ سے کم نہ ہوگا۔ ہوانا(کیوبا) ہم ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچ گئے کافی سیاح تھے اور کافی عملہ تھا ایئرپورٹ کے کئی کائونٹر تھے جہاں سانولے رنگ کی لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ سوشلسٹ ملکوں میں ایسا ہوتا ہے؟ ہم نے سوچا، اور باہر نکل آئے وہاں باہر نکلتے ہی معلوم ہوا موسم گرما زوروں پر ہے۔ اے بی نے کہا معلوم تو تھا گرمی ہوگی اور صاہر صاحب نے تصدیق کی”لیکن اتنی نہیں” اے بی نے احتیاط سو ڈالر بدلوائے جس کے بدلے دس ہزار پیسو ملے۔ ٹیکسی کی اور پرانے ہوانا میں جہاں چاروں اطراف گہما گہمی تھی ایک خوبصورت مکان میں دو کمرے مل گئے مالک مکان نہایت خوش باش تھے ایسا لگا ہم گھر سے گھر میں آگئے ہیں شام ڈھل رہی تھی رات کا وقت تھا اور بھوک لگی تھی۔ ایک ہوٹل کھلا تھا ہم نے مچھلی کا آرڈر دیا اور اے بی اور طاہر خان نے برخلاف سبزی منگوائی اس کے ساتھ بے مزہ چاول تھے۔ بس پیٹ بھرنا تھا۔ اور گھر آکر لمبی تان کر سو گئے۔ دوسرے دن پروگرام کے مطابق ہمیں وہاں قریب ہی سمندر کے ساتھ لگی گلی میں عبداللہ مسجد جانا تھا۔(کیوبن کی مدد کرنا تھی)
مسجد میں ایک مسلمان ہمارے ساتھ ہو لئے ہم نے کہا ٹیکسی کرو اور ہوانا دکھائو جو کیوبا کا دارالحکومت ہے۔ پہلے وہ پرانے ہوانا میں گھماتے رہے اور اسے دیکھ دیکھ کر ہمیں اسی کی دہائی کا نیویارک اور رنچھوڑئن چاکی واڑھا جیسے علاقے نظروں کے سامنے گھومتے رہے ایسا لگتا تھا جب ٹوٹی پھوٹی اجاڑ عمارتوں کو جگہ جگہ دیکھا کہ کسی دشمن کی بمباری کے نتیجے میں ہے۔ طاہر خان حسب معمول موقعہ موقعہ سے شعر سنا رہے تھے اے بی خاموش نظارہ کر رہے تھے اور ہم افسوس کے عالم میں کہ کمیونزم نے ظاہری طور پر ملک کو اجاڑ دیا ہے۔ لیکن پھر نئے ہوانا میں داخل ہوئے تو منظر دوسرا تھا، نئی عمارتیں بڑے بڑے فائیو اسٹار ہوٹل لگا کہ کراچی میں ستر کی دہائی میں ڈیفنس یا باتھ آئیلنیڈ) سوسائٹی میں آگئے ہوں۔ ٹریفک بھی کافی تھا۔ سگنل کا بہترین انتظام تھا دور سے نظر آتا تھا کہ کراسنگ کراس کرنے میں کتنے سیکنڈ باقی ہیں یہاں کیوبا نیویارک سے بازی لے گیا تھا۔ یہ ایک تفصیل ہے اور اس کا ذکر ضروری نہیں۔
شام ہوئی تو مسجد کا رخ کیا عبداللہ مسجد ایک چوڑی گلی میں کافی بڑی جگہ پر براجمان ہے جہاں ایک وقت میں ہال میں ایک ہزار مسلمان نماز پڑھ سکتے ہیں۔ امام مسجد جو وولنٹیر تھے نے نماز کے دوران خوبصورت قرآت کی لگا عصر کی کسی مسجد میں نماز کے بعد سمیر نے دوسرے مسلمانوں سے ملوایا اے بی صاحب نے مسجد کو بچوں کے لئے اٹشینری مہیا کی۔ پھر مسجد دوسرے چار افراد کے ہمراہ جس میں ایک کم عمر لڑکی امینہ بھی حجاب میں تھی ہمیں لے کر ہلال کھانوں کے ہوٹل میں لے گئے۔ جہاں سٹور کا نام نہیں تھا(خیال رہے یہاں سُور کافی استعمال ہوتا ہے) کھانے میں ہماری پسند کا بہت کم تھا۔ لہٰذا چکن، چاول اور ریشے ریشے کیا بیف (ذائقہ دار) اور پینے کے لئے پودینہ کا میٹھا پانی(مہیتا) جس کا دوبارہ آرڈر دیا اور ساتھ میں پیزا بھی منگوالیا۔ چکن پسند کا نہ تھا لہذا پیزا پر گزارا گیا۔ گھر آئے نیند سکون سے آئی اور اطمینان اور خوشی ہوئی کہ کیوبا میں مسجد اور کچھ مسلمان زندگی کا لطف اٹھا رہے ہیں ساتھ میں عبدل (لحیم شمیم) ہمارے گائیڈ بنے اگلے دو دن کے لئے۔
گھر کی مالکہ نے ایک اور گائیڈ کا انتظام کیا تھا جو ہر ژیز جانتا تھا ڈالر بدلنے سے ریستوران خاص کر ناشتہ کا انتظام یہ جان کر حیران تھے کہ وہاں ہوٹل بارہ بجے کھلتے ہیں لیکن راڈریگر جو ہمارا گائیڈ تھا ،سمندر کے کنارے جہاں باہر کے کافی سیاح تھے اور سب کے سب بیر(BEER) پی رہے تھے، صبح کے نو بجے تھے۔ اور شاید واحد ریستوران تھا جہاں انڈا اور امریکن کافی(دودھ کے ساتھ) اور مہیتا پیا انڈے آملیٹ کا لطف اٹھایا اور گھومنے کے لئے دن بھر شہر کی تفریح، اتریں چڑھیں والی ڈبل ڈیکر بس میں جس کا ایک دن کا ٹکٹ10ڈالر کا تھا بیٹھ گئے بس جگہ جگہ گھماتی رہی۔ یہ سفرنامہ ہوانا میں لکھا گیا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here