پاکستان میں جس قدر انسانی حقوق کی پامالی اب ہو رہی ہے ،پہلے کبھی نہ تھی، بے روزگاری، غربت ،مہنگائی اور لاقانونیت سے پوری عوام تنگ پڑ چکی ہے، گزشتہ چالیس سالوں سے کرپٹ سیاستدانوں نے اپنے خاندانوں کو سنوارنے ،لوٹ مار کرنے ،بیرونی ممالک میں پیسہ لو پراپرٹیز بنانے کے سوا کوئی بھی کام نہیں کیا۔2018ء میں انتخابات کے بعد عمران خان کی حکومت آئی جو اتحادیوں کے ساتھ تھی ساڑھے تین سالوں میں اسٹیبلشمنٹ کی اور اپوزیشن کی رکاوٹوں کے باوجود عمران خان تاریخی کام کرکے معیشت میں بہتری خارجہ پالیسی انٹرنل پالیسی، ہیلتھ کارڈ، بہتر تعلیمی نظام ،کلائمیٹ چینج ،اسلام فوبیا لوگوں کے کھانے کے مراکز قائم کئے یہ تمام تر ریفارمز پاکستان کے بڑوں کو پسند نہ آئے اور عمران خان کی حکومت کو زبردستی ہٹا دیا گیا، اب عمران خان کی قربانیوں میں اور تیزی آگئی، مشکلات میں اضافہ ہوگیا ،قتل کرنے کی سازشیں ہوئیں لیکن پاکستان کے عوام سچائی سے عمران خان کی حفاظت کر رہے ہیں ،دوسری طرف اوورسیز پاکستانی اکثریت میں عمران خان کو سپورٹ کرتے ہیں اوورسیز پاکستانیوں میں ایسے لوگ بھی ہیںجو شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی میں کروڑوں ڈالر دیتے رہے ہیں، عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیکر دل جیت لئے جو موجودہ حکومت نے ووٹنگ رائٹس ختم کر دیئے ،اوورسیز میں پی ٹی آئی کی تنظیمیں بھی شامل ہیں، پی ٹی آئی اوورسیز کے کرتا دھرتا ایک ایسے شخص کو بنا دیا جو سابق سینیٹرہے اور پیپلزپارٹی کا جیالا ہے جس نے گزشتہ سال پارٹی انتخابات کا شوشہ چھوڑا ووٹ رجسٹریشن کے چکر میں کروڑوں روپے اکٹھے کرکے غائب ہوگیا۔ پی ٹی آئی اندرونی انتخابات کے وقت یہ سابق سینیٹرزکو اکٹھا کرنے کا درس دیتا رہا اور عمران خان کی تعریفیں کبھی رو کر کرتا ،کبھی ہنس کر کرتا، ایک سال گزرنے کے بعد انتخابات کا دوبارہ شوشہ چھوڑا گیا حالانکہ یہ موصوف سابق سینٹر انتخابات کے بعد ایک دفعہ بھی سامنے نہیں آئے اور پی ٹی آئی بدترین گروہ بندیوں کا شکار ہوگئی، عمران خان صاحب کی حکومت ختم ہوئی ،تب بھی یہ سابق سینیٹر کیس بھی نظر نہیں آیا ،اچانک اب انتخابات کاروباری شوشہ چھوڑ رہا ہے ،اس وقت تو پوری دنیا میں یہ پاکستانی حکومت کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لئے احتجاج کی ضرورت سے امریکہ میں انسانی حقوق کے ادارے ڈیمو کریسی بحال کے ادارے لاقانویت کرنے کے ادارے ، کانگریس اور سینٹ موجود ہے۔ تیس، چالیس سال قبل ایک عرب ملک کے پاکستان کی فوجی قیادت سے کہا کہ فوجیوں کو تربیت دیں جن پاکستانی فوجیوں نے عرب ملک کے ریگستانوں میں ٹریننگ شروع کی اس عرب ملک کے فوجیوں گرمی کو برداشت نہ کرسکے۔ برُی حالت ہونے لگی تو ان کے ملک کے سربراہ نے کہا کہ ہماری فوج کو بند ایئرکنڈیشنر کمروں میں ٹریننگ دے دیں ،اب آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ فوج کب لڑے گی یہی حال ہمارے پی ٹی آئی امریکہ کے دوستوں کا ہے جو واٹس ایپ گروپ پر آپس میں پوسٹیں بانٹتے رہتے ہیں، ایک ایک پوسٹ کو بار بار پوسٹ کرتے ہیں کبھی یہ ہوگیا وہ ہوگیا ان کا حال ان عرب ملک کے فوجیوں جیسا جو ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ٹریننگ لے رہے ہیں جس طرح پاکستان میں ظلم بربریت اور قتل و غارت ،پکڑ دھکڑ ،لاقانونیت ،سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں ، تشدد ہو رہا ہے، پی ٹی آئی امریکہ کو ایک دن بھی گھر میں نہیں بیٹھنا چاہئے ،اپنے اپنے علاقے کے اراکین کانگریس جو ہمیں سینٹرز کو ملیں انسانی حقوق کے اداروں کے پاس جائیں۔ پاکستان کی ایمبسی کے سامنے احتجاج کریں امریکہ میں ہونے والے احتجاج کا فوری اثر ہوتا ہے، پی ٹی آئی امریکہ کے ورکرز آپس میں سخت گروہ بندی میں تقسیم ہیں ، عمران خان کی تبدیلی کے نعرے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سونے پہ سہاگا شہباز گل صاحب امریکہ کے دورے پر آئے جو اپنے آپ کو پروفیسر کہتے ہیں۔ انتہائی چھچھورے ،غیر سنجیدہ اور ادب آوروں سے عاری سیاست دان ہیں جس کو خود تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اساتذہ کی ریٹنگ ویب سائٹ پر جائیں تو دیکھ سکتے ہیں۔ شہباز گل کے اسی فیصد طالبعلم اس کو غیر سنجیدہ سمجھنے ہیں۔ شہباز گل کی واشنگٹن میں موجودگی میں پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی کے کارکن نے سینئر صحافی کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا اور شہباز گل نے کوئی نوٹس نہ لیا ایک سال قبل بھی پی ٹی آئی کے ورکرز نے ایک صحافی کو ہراساں کیا، دھمکیاں دیں، ان کا کیمرہ پھینک دیا، یہ پی ٹی آئی کے ورکرز اس قسم کی سیاست کر رہے ہیں ،ان کی کیا کارکردگی پاکستانی کمیونٹی کے لوگوں کو چاہیے جب آئندہ یہ ووٹ مانگنے آئیں تو ایک رہنما شناختی کارڈ انفارمیشن نہ دیں ،پرائیویسی کو محفوظ کریں اور ان سے کارکردگی پوچھیں کہ سوائے لڑائیوں اور تصویروں کے ان نام نہاد پی ٹی آئی گروپوں کے کیا کیا مقاصد ہیں، کیا کارکردگی ہے، پاکستان کے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے پی ٹی آئی نے کیا کیا ہے۔ یا کوئی کمیونٹی کا کام کیا ہے، اس تحریر کے ذریعے پارٹی چیئرمین عمران خان صاحب سے درخواست ہے کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں سنجیدہ پڑھے لکھے، مفادار محب وطن لوگوں کو ذمہ داریاں سونپیں جو صحیح معنوں میں آپ کے تبدیلی کے پروگرام کو آگے بڑھا سکیں اگر اوورسیز پاکستانی عمران خان صاحب کو بہت زیادہ پسند کرتے اور محبت کرتے ہیں اور سپورٹ کرتے ہیں، واشنگٹن ،میری لینڈ ،ورجینیا میں پڑھا لکھا اور کاروباری طبقہ سٹیپ بیک کر جاتا ہے۔ امید کرتے ہیں عمران خان صاحب اپنی فرصت میں امریکہ اور اوورسیز پارٹیز کی ازسرنو تنظیم سازی کریں گے تاکہ پی ٹی آئی امریکہ مثبت کردار ادا کرسکے اور امریکہ سے ترقی کے پراجیکٹس پاکستان لے جاسکیں۔
٭٭٭٭