چودھری پرویزالٰہی آگے اور پولیس پیچھے! !!

0
40
پیر مکرم الحق

بقول عمران خان پنجاب کا بڑا ڈاکو دو تین دن سے پولیس سے چھپتا پھر رہا ہے۔ کل تک جو بڑا ڈاکو تھا وہ آج عمران خان کا سردار ہے۔ چھوٹا موٹا ڈاکو تو عمران خان خود بھی ہیں اسلئے ظاہر ہے کہ سرداری کی پگ تو بڑے ڈاکو کے سر پر ہی رکھی جائیگی۔ دیکھا جائے تو یہ سلسلہ تو شروع سے ہی دنیا میں چلتا ہی رہا ہے۔ ڈاکوئوں کا سردار تو ہمیشہ پرانے اور منجھے ہوئے ڈاکو کو ہی بنایا جاتا ہے۔ ڈاکوئوں کے گروہ میں مختلف کام بانٹے جاتے ہیں کچھ ڈاکو اگلے ڈاکے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں توکچھ گروہ کیلئے چوکیداری کرتے ہیں۔ تو کچھ پولیس کی جاسوسی کرتے ہیں۔ تو کچھ چرب زبان ڈاکوئوں کو گمراہ کن پروپیگنڈہ کا کام سونپا جاتا ہے۔ جسکے ذریعے قانون نافذ کرنے والوں کو غلط اطلاعات فراہم کرنا اور عوام تک غلط اطلاعات پہنچانا بھی ہوتا ہے۔ سندھ اور پنجاب میں کئی سالوں سے ایک ریت چلی آئی ہے کہ بااثر جاگیردار ملک سردار اور وڈیرے نامی گرامی ڈاکوئوں کی مختلف طریقوں سے سرپرستی بھی کرتے ہیں جس سے وہ اپنے مخالفین کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اپنے مال دولت کو ڈاکوئوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا یا سنا ہوگا کہ نواب آف کالا باغ نواب امیر محمد خان ایوب خان کے دور اقتدار میں مغربی پاکستان کے گورنر بھی ہوئے تھے یہ ون یونٹ کا زمانہ تھا۔ پاکستان کے دو حصہ ہوتے تھے ایک مشرقی اور دوسرا مغربی کالا باغ اور میانوالی ایک دوسری سے زیادہ دور نہیں لیکن نواب امیر محمد خان نہایت سخت مزاج نواب، سیاستدان اور والد ہوا کرتے تھے۔ تو اب امیر محمد خان کا خوف اور دبدہ کالا باغ کے اندر تو تھا یہی تھا بلکہ سارے مغربی حصہ پر انکا بڑا رعب اور دبدہ تھا۔ لاکھ برائیاں ہو لیکن نواب صاحب کی ایک بات پر انکو جاننے والے سب متفق ہونگے صو معاملات کے پابند اور سرکاری معاملات میں کبھی کوئی ہیرا پھیری نہیں کی نہ کبھی اپنے خاندان یا اولاد کو کوئی ناجائز فائدہ حاصل کرنے دیا حت الوسع انکے صاحبزادوں کو بغیر وقت لئے وہ نہیں ملتے تھے۔ انکا ایک خاص ملازمہ تھا ”نورا” اس کی بات مانتے تھے بچوں کو بھی نورے کے ذریعے اپنی گزارشات اپنے والد محترمہ تک پہنچانی پڑتیں تھیں۔ نواب صاحب اپنے ذاتی وخاندانی معاملات میں بھی نورے ہی کی بات سنتے تھے۔ مشورہ بھی اسی ملازم سے کرتے تھے۔ نہایت افسوس کی بات تھی کہ اسی ”نورے” کو بیجا اہمیت دیئے جانے پر بلاخر نواب صاحب کا قتل بھی اپنے ہی بیٹوں کے ہاتھوں کو قبر سے نکال کر جلانے کے بعد دریا سندھ میں بہا دیا گیا۔ انہیں نواب صاحب کی گورنری کے دور میں ایک وقت آیا تھا کہ نواب موصوف کے تعلقات اپنے ہی صدر ایوب خان سے بگڑ گئے۔ تب ”محمد خان ڈاکو” کے نواب صاحب سے تعلقات کی بات سامنے آئی اور پھر چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ نواب کالا باغ نے ایوب خان کی ”سوپاری” یعنی انہیں قتل کرنے کا کام محمد خان ڈاکو کو سونپ دیا ہے۔ وہ موقعہ غالباً ایسا تھا کہ جنرل ایوب خان بھی گھبرا گئے تھے اور انکی ذاتی حفاظت کا انتظام مضبوط سے مضبوط کردیا گیا تھا۔ ایوب خان اچھی طرح جانتے تھے کہ نواب صاحب جب ایک مرتبہ اپنے دشمن کا صفایا کرنے کا فیصلہ کرلیں تو اپنے ارادے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ لیکن بہرحال وہ پاک فوج جیسے منظم ادارے کے سربراہ تھے۔ انہوں نے ڈاکو محمد خان کی گرفتاری کا پروانہ جاری کیا اور پھر فوج کی مد دسے آخر کار ڈاکو محمد خان کی گرفتاری عمل میں آگئی۔ ایسے حالات میں نواب امیر محمد خان بھی کمزور پڑ گئے اور مستعفی ہونے کے علاوہ انکے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہا۔ اسکے بعد زوال نے نواب صاحب کے گھر کا راستہ دیکھ لیا اور پھر کچھ ہی عرصہ کے بعد انکا اپنی یہی اولاد کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ دریا سندھ کے دونوں کناروں پر گھنے جنگل ہمیشہ خطرناک ڈاکوئوں کی محفوظ آمجگھ رہتی آئی ہے۔ بڑے اور مشہور ڈاکوئوں کو اثروسورخ رکھنے والے وڈیروں، جاگیرداروں اور ملکوں کی سرپرستی کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ اسی طرح ڈاکو بھی ان بڑے بظاہر معاشرے کے عزت داروں کی مشکل اوکات میں سہولت کار بننے سے ہچکچاتے نہیں۔ یہ عمل دونوں اطراف کو اپنی لوٹ مار جاری رکھنے کیلئے دوطرفہ مجبوری بن جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ دونوں طبقات ایک دوسرے کی ضرورت بن جاتے ہیں۔ سندھ میں ایسے بااثر لوگوں کو پاتھیدار کہتے ہیں اور پنجاب میں انہیں رسہ گیر بھی کہتے ہیں۔ رسہ گیر دراصل ابتدا میں مال مویشی کی چوری سے اپنا کام شروع کرتے ہیں پھر وہ دوسرے چوروں اور ڈاکوئوں کی سہولت کاری شروع کرتے ہیں جس کے بدلے جرائم پیشہ لوگ انہیں حصہ دیتے ہیں۔ اس ساری تمہید کا مقصد آپکو عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی کے گٹھ جوڑ کے مقاصد کو وضاحت کرنی تھی۔ چودھری پرویزالٰہی دراصل چودھری ظہور الٰہی کے داماد ہیں اور انکو سیاست میں اہمیت دلوانے میں شریف برادران کا بڑا ہاتھ تھا۔ لیکن پھر انکے آپس میں اختلافات بڑھتے چلے گئے اور آخر کار جنرل مشرف کا دور آیا تو اندھا کیا چاہیے دو آنکھیں کے مصداق چودھری صاحب دوڑ کر جنرل مشرف کے بغل بچہ بن گئے۔ جنرل مشرف کو بھی ایسے لوگوں کی تلاش تھی جوکہ موقعہ پرست اور بے اصول ہوں چودھریوں کی بھی لاٹری کل گئی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں فوجی آمروں کے لئے پالک کبھی بھی احتساب یا اینٹی کرپشن کے اداروں کی پکڑ سے بچے رہتے ہیں۔ البتہ اپنی حفاظت کی قیمت تو بحرحال گاہے بگاہے ادا کرتے رہتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں انہوں نے جنرل ضیاء کے دور سے بھی اپنے تعلقات طاقتور اداروں میں مضبوط سے مضبوط تر کر لئے۔ احتساب کے خوف وخطرے سے آزاد چودھری خاندان نے دولت کی لوٹ مار کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ یہ نہیں کہتا کہ باقی سیاستدان دودھ کے دھلے ہوئے ہیں لیکن انہیں اپنے مقدمات کو بھگتنے کی بھاری قیمت وکیلوں کی بھاری فیس اور پولیس اور ایف آئی اے پھر جیل کے عملوں کے اخراجات بھی اٹھانے پڑتے ہیں خرچہ کے علاوہ تذلیل و رسوائی بھی لیکن آمروں کے زیر سایہ سیاستدان پرتعیش اور آرام دہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں عمران خان اور چودھری پرویزالٰہی اور ان کے بیٹے مونس الٰہی کی قربت کو موازنہ بھی نواب امیر محمد خان اور محمد خان ڈاکو کے الحاق سے کیا جاسکتا ہے۔ ویسے بہت سارے لوگ سمجھتے ہونگے کے نواب کالاباغ کوئی اجد یا گنوار رنگیلے نواب تھے نہیں وہ بیرون ملک اعلیٰ تعلیم یافتہ فرفر انگریزی بولنے والے جاگیردار تھے بس وہ روایتی آدمی تھے جنہوں نے کبھی اپنی پگڑی نہیں چھوڑی وہ بھی اتنی ہی اناEGOرکھتے تھے جیسے انکے پڑوسی عمران خان نیازی رکھتے ہیں لیکن نواب صاحب قول کے پکے بااصول آدمی تھے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here