عمران خان کی برطرفی کا آنکھوں دیکھا حال!!!

0
300
رمضان رانا
رمضان رانا

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدم اعتماد تحریک کامیاب ہوئی ہے کہ جس میں ایک اسٹیبلشمنٹ کا انتخابات میں ڈاکہ زنی سے لایا ہوا وزیراعظم عمران خان کو پارلیمنٹ کی عدم اعتماد تحریک سے نکال باہر پھینکا ہے جبکہ ماضی میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور شوکت عزیز کے خلاف عدم اعتماد تحریک ناکام ہوچکی تھیں۔عدم اعتماد تحریک دراصل وزیراعظم کا مواخذہ ہوتا ہے جو حکومتی کارکردگی کی ناکامیوں، نااہلیوں اور نادانیوں کے خلاف پارلیمنٹ اپنی عدم اعتماد تحریک سے وزیراعظم کو برطرف کرتی ہے جو بعد میں ہمیشہ برطرف وزیراعظم کہلاتا ہے اسی لئے دنیا کے مہذب اور جمہوری ملکوں میں الزامات کے بعد وزیراعظم یا صدر عدم اعتماد تحریک یا مواخذے سے بچنے کیلئے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجاتے ہیں۔تاہم عدم اعتماد آنکھوں دیکھا حال کا مظاہرہ پوری قوم نے دیکھا ہے جو9اپریل2022کو ہوا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے کئی صہینوں کی مشکلات اور مصائب کے مراحل سے گزار کر عمران خان کو آخر کار برطرف کیا ہے جن پر الزامات تھے کہ انہوں نے پاکستان کو استحکام گاہ کی بجائے انتقام گاہ بنا دیا ہے۔مہنگائی کئی گنا بڑھا دی ہے۔بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ملک پر دوگنا سے زیادہ قرضوں کا بوجھ آچکا ہے۔ڈالر روپے کی قیمت گر چکی ہے۔ایک ڈالر190روپے کا ہوچکا ہے سونے کی قیمت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔عمران خان کے وعدے تمام جھوٹ کا پلندہ نکلے ہیں۔پاکستان عنقریب سرکاری طور پر دیوالیہ پن کا شکار قرار دیا جارہا ہے۔تجارت تباہ وبرباد ہوچکی ہے۔سرمایہ کاری بیرون منتقل ہوچکی ہے۔سی پیک کو منجمد کر دیا گیا ہے۔اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کر دیاگیا ہے۔ملکی زرمبادلہ کی ترسیل رک چکی ہے وغیرہ وغیرہ یہ وہ الزامات تھے جن کی بنا پر عمران خان کو پارلیمنٹ نے عدم اعتماد تحریک کے ذریعے برطرف کیا ہے۔بہرکیف سپریم کورٹ نے اپنے عدالتی حکم کے ذریعے پارلیمنٹ کا اجلاس9اپریل بروز ہفتہ بوقت10-30بجے صبح بلانے کا حکم دیا کہ اس دن عدم اعتماد تحریک کے سلسلے میں ووٹنگ کرائی جائے۔جس سے پہلے ڈپٹی اسپیکر اجلاس ملتوی کر چکے تھے جس کے بعد عدم اعتماد تحریک کے انعقاد کے سلسلے میں سپریم کورٹ کو ازخودنوٹس کے ذریعے حکم دینا پڑا۔چنانچہ9اپریل کو اجلاس صبح سے آدھی رات تک جاری رہا جس کو حکمران طبقہ اپنے پالتو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے مختلف حیلوں بہانوں طویل سے طویل کرتے رہے جس میں تین تین گھنٹوں کی تقاریر شامل تھیں۔پھر اچانک اجلاس ملتوی ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے جس پر عدلیہ حرکت میں آگئی جس کے حکم عدولی ہو رہی تھی کہ رات کے دس بجے رات اسلام آباد ہائیکورٹ اور بارہ بجے رات سپریم کورٹ کو عدالت کھولنا پڑی کہیں اسپیکر اجلاس حسب سازش ملتوی نہ کردے۔جو شاید منتظر تھے کہ کوئی غیبی طاقت موجودہ حکومت کو بچا لے جس پر اچانک خبریں گرم ہوگئیں کہ عمران خان نے آرمی چیف جنرل باجوہ کو ہٹا کر جنرل فیض حمید کو آرمی چیف بنا دیا جو غیر ملکی ایجنسی بی بی سی خبر تھی جس میں مختلف افواہیں گردش کرتی رہیں کہ جنرل باجوہ اور جنرل نعیم نے عمران خان کو چار کمرے میں بند کرکے مارا پیٹ ہے جنہوں نے آرمی چیف ہٹا کر جنرل حمید کو نیا اپنا آرمی چیف بنا کر ملک پر مارشلاء نافذ کرنا چاہتے تھے۔پھر اسلام آباد میں گلی کوچوں میں فوجی گاڑیاں حرکت میں آچکی ہیں۔ایئرپورٹوں کو الرٹ کر دیا گیا۔بعض لوگوں کو ملک چھوڑنے سے روکا گیا۔قیدی گاڑیاں پارلیمنٹ کے قریب نظر آئیں۔یہ پاکستان کی تاریخ میں وہ ہیجان کا وقت تھا کہ جس پر پوری قوم اور دنیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں کے اگلا قدم کیا ہوگا۔جوں جوں بارہ بجے رات کاوقت قریب آرہا تھا ہر صرف افواہوں کو طوفان برپا تھا کہ اچانک وزیراعظم ہائوس میں سازشیں تباہ ہو رہی تھیں کہ عمران خان کو پارلیمنٹ کے ہاتھوں برطرف نہیں ہونے دیا جائے گا۔جس کے لیے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر اپنی کرسیاں چھوڑ کر چلے گئے پھر نہ جانے کیا ہوا کہ اسپیکر واپس آکر پارلیمنٹ کے سامنے مستعفی ہونے کا اعلان کرکے واپس چلے گئے جس میں ڈپٹی سپیکر اسپیکر گورنروں کے مستعفی ہونے کے اعلانات شروع ہوئے مگر عمران خان نے مستعفی ہونے کی بجائے برطرفی قبول کی ہے جو اب پارلیمانی نظام کے حصہ بن جائے گا کہ پاکستان کے ایک وزیراعظم عمران خان کو پارلیمنٹ نے برطرف کیا ہے جن پر موجودہ بیان کردہ الزامات عائد کیں۔بہرحال عدم اعتماد تحریک اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔جس کی وجہ سے پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوچکا تھا۔بندر کے ہاتھ سے بندوق چھیننا مشکل ہوچکا تھا جس کے بعد عمران خان کا نیا پاکستان کی جگہ قائداعظم کا پرانا پاکستان واپس آچکا ہے جس میں اب عمران خان کو ایک برطرف وزیراعظم کے لقب سے پکارا جائے گا۔جن کے دور میں عوام کو مہنگائی بے روزگاری بھوک ننگ کے علاوہ کچھ نہ ملا تھا۔ہر طرف تباہی وبربادی کا سماں تھا۔پورا ملک استحکام کی بجائے انتقام گاہ بن چکا ہے۔جو ہٹلر کی طرح اہل وطن کو ہولوکوسٹ کا نشانہ بنائے ہوا تھا۔ملک میں خانہ جنگی پیدا کر رہا تھا لوگوں کو جھوٹے اور من گھڑت الزاموں سے ذہنی اور جسمانی تکالیف دی جارہی تھیں۔جنرلوں کے بعد ایک سویلین آمر اور فاشسٹ کا سامنا تھا جو اداروں کو اپنا ذاتی استعمال گاہ بنانے کا منصوبہ بن چکا تھا۔جس سے ملکی سلامتی دائو پر لگ چکی ہے۔اقلیت اکثریت پر غالب آچکی تھی وہ ملک اب بچ گیا جس میں ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں پر مشتمل اتحاد نے عدم اعتماد تحریک سے ایک آمر جابر اور فاشسٹ حکمران سے نجات دلوائی ہے جو آخر میں بھارت کی تعریفیں اور پاکستان کی مخالفت اور مدینہ ریاست پر نکتہ چینیاں کرنے لگا تھا۔آج وہ برطرف ہو کر اپنے بنی گالہ محل میں واپس جاچکا ہے کل نہ جانے کہاں ہوگا اس کا انتظار کیا جائے بشرطیکہ فارن فنڈنگ کا فیصلہ ہوپائے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here