میرا بھانجا محمد ندیم بن محمد پہلوان گائوں سے کراچی اپنے بچوں کو لینے جارہا تھا جیب میں نوے ہزار روپیہ تھا۔ حیدر آباد کے قریب ڈاکوئوں نے لوٹ لیا اور پھر گولی مار کر قتل کردیا، چھبیس سال عمر تھی ایک دوست امریکہ سے پاکستان گیا۔ ایئرپورٹ سے ٹیکسی لی۔ ٹیکسی ڈرائیور ڈاکوئوں کا ساتھی تھا۔ ویرانے میں جاکر سب کچھ لوٹ لیا۔ میرا بیٹا بنک سے پیسے نکلوا کر باہر نکلا گاڑی میں بیٹھنے لگا۔ ڈاکو نے پستول کنپٹی پہ رکھ دیا اور جو کچھ تھا چھین کر فرار ہوگئے۔ ایک مولوی صاحب یوکے سے پیسے لے کر پاکستان گیا۔ اپنے گائوں کی مسجد بنانا چاہتا تھا۔ ڈاکوئوں نے پیسے چھین کر مولوی صاحب کو گولی مار دی۔ غرضیکہ سمجھ سے باہر ہے کیا واقعی پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اسلامی چھوڑ یہاں تو انسانی قدریں بھی دم توڑ رہی ہیں۔ اسلامی نام کی توہین جس بھونڈے انداز سے ہم کر رہے ہیں اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ یہاں ایک مرتبہ ایمبیسی جانا ہوا۔ نیوایئر کا موقع تھا۔ سفیر صاحب کسی دوسرے ملک کے سفیر کو تحفہ بھیج رہے تھے۔ لیٹر پیڈ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تھا۔ ساتھ شراب تھی۔ اس مرتبہ انتخاب ہوا۔ پاکستانی قوم نے بڑے طریقے سے اسلامی جماعتوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ویسے بھی کون قانون اسلامی ہے۔ ایک مذاق ہے جو ہم کر رہے ہیں مگر ہمارا احساس مردہ ہوچکا ہے۔ ہم غلط کام اپنا حق سمجھ کر رہے ہیں۔ اسلامی جماعتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے ٹھیک ہوا ہے۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے جماعتیں صرف دو ہیں۔ حزب اللہ اور حزب الشیطنٰ ان کے درمیان منافقین ہیں۔ اسلامی جماعت کا یعنی حزب اللہ کا ایک ہی امیر ہوتا ہے۔ دو امیر نہیں ہوتے مگر یہاں تو ہر اسلامی جماعت کا امیر الگ ہے۔ اس کی وجہ سے مسلکی وجود پر جماعتیں بنائی گئی ہیں۔ آج بھی اگر تمام اسلام پسند جماعتیں حقیقت پسند ہوجائیں اور ایک امیر منتخب کرلیں اور حزب اللہ کا نام دے کر اللہ کا حکم پورا کردیں۔ اولیک ھم المعلحون کے زمرے میں آجائیں۔ تو یقین کریں۔ ووٹ بنک آج بھی آپ کا ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ہماری اسلام پسند جماعتیں صرف اسلام آباد پسند جماعتیں ہیں۔معجزات کا انتظار ہے معجزے ایسے تھوڑے ہوتے ہیں۔ مندرجہ بالا باتیں اور مزید جو کام ہم کر رہے ہیں۔ کسی طور پر اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ لہذا خاکم بدہن حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اسلام کے ساتھ مذاق چھوڑیں۔ اور خالی جمہوریہ پاکستان کردیں۔ یہ ہمارا اسلام پراحسان ہوگا تاکہ کھل کھلا کر آرٹ اور فن کے نام پر اپنی جوان بچیوں کو بچا سکیں کرکٹ کے میدان میں کاچھے پہنا کر ڈھول کی تال چوکے چھکے پر نچا سکیں۔ اشتہارات کی آڑ میں عورت کے ہر عضو کو نمایاں کرسکیں۔ تاریخی مساجد کو فلموں ڈراموں کی ریہرسل گاہ بنا سکیں۔ نہروں، تالابوں اور بارش میں بھیگتی اداکارائوں کو انٹرنیشنل ایوارڈ دلوا سکیں۔ سو میرے بھائیو، بچو اور باحیا بچیو احتجاج کریں کہ پاکستانی کے ساتھ اسلامی لفظ ہٹا کر جمہوریہ پاکستان کردیں۔ تاکہ اللہ ورسول کے سامنے زیادہ شرمندہ ہونے سے بچ جائیں جتنا کچھ کر چکے ہیں۔ اللہ کرے اس کا حساب دینے کے قابل رہیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ کوئی اور نہیں کر رہا ہماری شامت اعمال ہے۔
٭٭٭