اس دفعہ کالم لکھتے ہوئے ہمیں کافی وقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔اتوار کا دن تھا اور ہمیں جس کا انتظار تھا، وہ امریکہ کے سب سے بڑے فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے شو اکاڈمی ایوارڈز(دی آسکر) کا تھا جو ہم نے پچھلے49سال میں ایک دوبار ہی بوجہ مجبوری دیکھا نہ ہوگا۔لیکن اسی شام بروکلین نیویارک میں بھی فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والا لائیو شو تھا۔یعنی محمد حسین کی کاہلوں پر مبنی کتاب اور انکی25سالہ امریکی زندگی کے مناظر میں وطن سے دور اور وطن میں پیش آنے والے سیاسی حالات اور ان کی اپنی زندگی سے جڑے واقعات تھے۔اور اسی شام ہم پچھلے چار ماہ سے جس درد سے گزر رہے تھے اس کی شدت کی وجہ سے ممکن نہ تھا کہ بروکلین جاتے اور وہاں تین سے چار گھنٹے گزارتے۔لیکن ہمارے دوست اور نیوز پاکستان کے پبلشر مجیب لودھی کے اصرار کو رد کرنا مشکل تھا پیش کش تھی کہ ڈرائیو وہ کرینگے۔سو ایسا ممکن ہو سکا کہ ہم اس پروگرام میں شامل ہو سکے جو اگر نہ جاتے تو افسوس ہوتا کہ نیویارک میں ایسے مواقع کم ہی آتے ہیں کہ جہاں ایک ہی جگہ ایک ہی وقت میں ٹرائی اسٹیٹ ایریا میں رہائشی نکھاری، دانشمند، صحافی، کالمسٹ، شعراء اور مفکرین جمع ہوں اور ان سب کو اسٹیج پر سمیٹنے کے لئے طاہر خان جیسا ناظم ہو جن کی نظامت نے پروگرام میں چار چاند لگا دیئے ہوں۔
ہر چند کہ پروگرام کے باقاعدہ آغاز سے پہلے ایک صاحب نے خود اسٹیج پر جاکر اپنا پروگرام(پہلے سے طے شدہ) شروع کردیا ہو اور طاہر خان کی اسٹیج پر آمد میں تاخیر ہوئی یہ لکھتے چلیں کہ بروکلین کے اس ہال میں جیسے پروگرام کی ضرورت کے تحت ڈیکوریٹ کیا گیا تھا اس کا کریڈٹ محمد حسین کو دینا ضروری سمجھتے ہیں جو نیوز پاکستان کے تعاون سے تھا شو اپنے وقت سے دو گھنٹے تاخیر سے شروع کیا گیا تھا اور ہاں مہمانوں سے کھچا کھچ بھر گیا تھا۔اسی لحاظ سے پروگرام کی طوالت تھی ہر عمر کے لوگ تھے نوجوانوں کا کرائوڈ تھا جو محمد حسین سے انکی محبت کا ثبوت یہ انکی شخصیات کا دوسرا پہلو ہے اور اس کا ذکر لکھ کر ہم راستے سے ہٹ سکتے ہیں طاہر خان جب نظامت کرتے ہیں تو ہر کوئی توجہ سے سنتا ہے اور اپنے رویئے کو بدل کر ادب نواز ہوجاتا ہے سو ہم نے بغور جائزہ لیا محمد حسین کی انکے لکھے اور نیوز پاکستان میں شائع ہوئے کالموں پر مبنی کتاب”مجھے ہے حکم اذان”انکے سیاسی پس منظر میں وہاں اور یہاں ہونے والے واقعات کے بارے میں ہے۔پہلے ہم یہ بتاتے چلیں کہ کالم نویسی روزانہ کی خبروں پر ہوتی ہے اور دونوں یعنی کالم اور خبر تصدیق کے پس منظر میں لکھے جاتے ہیں کالم کا انداز طنز ومزاح سے بھرپور ہوتا ہے اور کسی خبر یا واقع شخصیت پر مبنی ہوسکتا ہے محمد حسین کے کچھ کالم پڑھنے کے بعد ہیں رئیس امروہوی، ابراہیم جلیس، ابن انشاء اور شورش کا شمیری یاد آگئے جو تنقیدی ہونے کے علاوہ تعمیری بھی ہوتے تھے کہ اگر حکومت یا شہر کی انتظامیہ پر لکھا گیا ہے تو اسے سنجیدگی سے لیا جاتا تھا۔انکی کتاب پر مجیب لودھی نے ایک کالم لکھ کر ہمیں آگاہی دے دی تھی کہ”یہ محمد حسین کے امریکہ میں گزرے25سال ہیں جو کتابی شکل میں شائع ہوئے ہیں وہ ان تحریروں میں بیان کردہ مشاہدات واقعات، مناظر، تمثیلوں، تحریکوں اور پروگراموں کا محرک اور حصہ رہا ہے۔بڑے بڑے کام بھی کئے لیکن بیان میں ”میں” نظر نہیں آیا میرے خیال میں اس سے زیادہ حقیقت کچھ اور نہیں کہ یہ سب ہم اس کی ذات سے منسلک دیکھتے آئے ہیں۔
یہ بھی لکھتے چلیں کہ وہ کم گو مگر نہایت پریکٹیکل شخصیت کے مالک ہیں کہ بات سے زیادہ اپنے کام سے بروکلین کے پاکستانیوں میں مشہود ہیں اور بروکلین کی ادبی، سیاسی، نوجوانوں میں حب الوطنی کا جزبہ پیدا کرنے والی محفلوں کے روح رواں نہایت ہی اچھے منتظم ہیں پیشے سے وہ وکیل ہیں لیکن اگر انہیں سیٹ ڈیکوریش کا ماہر کہا جائے تو برا نہ ہوگا ہال میں چاروں طرف چسپاں قد آدم ان کی کتاب پر تبصرہ کرنے والوں کی تصاویر انکی تحریروں کے خلاصے کے ساتھ کافی متاثر اور ایک ادبی فضا قائم کرتی دکھائی دی یہ شو(ہم اس پروگرام کو شو کہینگے کہ یہ دلچسپ تھا)تین گھنٹے پر مبنی تھا اور تیس کے قریب مقرروں کے آگے پیچھے طاہر خان کی ادبی اور شاعرانہ طرز نے محفل کو جگائے رکھا اس کا ثبوت پاکستان کی کونسل جنرل عائشہ علی تھیں جو تین گھنٹے سے زیادہ دلچسپی سے ہمہ تن گوش تھیں اور آخر میں انہوں نے حاخبرانہ(HUMBLE)انداز میں بہت اچھی باتیں کہیں کہ ہمیں پہلی بار کسی شخصیت پر یہ لکھنے پر مجبور ہونا پڑا کہ انکی آمد پروگرام کے تعلق سے اہم تھی۔اور یوں ایک کتاب پر اتنی عمدہ تقریب کا اختتام ہوا جو ہمیں یاد رہے گی۔جاتے جاتے ہم اکاڑمی ایوارڈ کا بھی ذکر کرتے چلیں جو ہم نے دوسرے دن دیکھا اور جو منظر سامنے آیا وہ لگا کسی فلم کا شاٹ تھا کہ افریکن امریکن مشہور اداکار اسمتھ اسٹیج کامیڈین اور اداکار کرس راک کو ایک زور دار ٹھونسہ جما چکے تھے کیا حقیقت تھی یا پہلے سے پلان شدہ کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن دونوں صورتوں میں یہ ایک بھونڈی اور غیر معیاری پیش کش تھی جو دنیا کے245ممالک میں بیک وقت دیکھی جارہی تھی۔سیٹلائٹ کی مدد سے ہمیشہ کی طرح یہ شو بھی غیر معیاری تھا۔جس کی میزبانی تین عورتوں کے سپرد تھی جن کا پیدا کردہ مزاح امریکن کو تو سمجھ میں آیا ہوگا لیکن دوسرے ممالک اسٹیج پر آنے والے مہمانوں کے ڈریس دیکھنے میں لگے ہونگے۔چونکہ اسکا پروڈیوسر بھی افریقن امریکن تھا لہذا یہ شو ذرا مختلف تھا اب اگر ایوارڈز کے بارے میں لکھیں تو بہت سے پڑھنے والے سمجھ نہ پائینگے کہ ہم فلموں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اب ہم نے فلمیں دیکھنا بند کردی ہیں یہ بات ہندوستان اور پاکستانی فلموں تک محدود رہے ورنہ دوسرے ممالک میں فلمیں سوشل زندگی کا جز ہیں۔بہترین کارکردگی کے لئے جو فلمیں2021میں ریلیز کی گئیں ان میں بہترین فلم کا ایوارڈ”کوڈا(CODA)اور بہترین ہدایت کاری کا ایوارڈ ہمارے اندازے کے مطابق مشہور اداکارہ جین کیمپپن کو فلم”کتے کی طاقت” (POWER OF DOG)کو دیا گیا۔بہترین اداکار ولی اسمتھ کو ٹینس پلیرز دو بہنوں اور انکے کوچ باپ کی اداکاری پر دیا گیا دوسرے معنوں میں غلط نوازا گیا،مختصر طور پر یہ کہتے چلیں کہ اکاڑی ایوارڈ اپنی افادیت کھو چکا ہے۔اور اس سال اس پر افریقن امریکن اور خواتین کا غلبہ تھا۔
٭٭٭