عمران خان کے پریڈ گراونڈ میں ہونے والے عظیم الشان جلسے میں کوئی بیس پچیس لاکھ حاضرین موجود تھے، اسلام آباد کی سڑکوں پر بھی کپتان کے اتنے ہی حامی موجود ہوں گے اور کروڑوں گھروں میں ٹی وی سے چپکے کپتان کی خاموش سپورٹ کر رہے تھے اور اس کی خیر و عافیت کے لیے دعاگو تھے کہ وزیراعظم نے ایک خط لہرا کر اعلان کیا کہ ان کے خلاف عالمی سازش کی گئی ہے اورعالمی طاقتوں کے سامنے سر نہ جھکایا تو ان کا تختہ الٹ دیا جائے گا۔ اس دوران دشمن نے اپنا وار کر دیا۔ عثمان بزدار کے خلاف اچانک تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اور گھنٹوں میں ہی وہ چٹ پٹ ہو گئے۔ پتہ چلا کہ انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے اور چودھری پرویز الٰہی اب نئے وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گے۔ سب دم بخود رہ گئے۔ہم نے سن تو رکھا تھا کہ غیر ملکی جاسوس ادارے بہت سازشی، مکار اور ذہین ہوتے ہیں، دایاں دکھا کر بایاں مارتے ہیں، مگر دیکھا پہلی مرتبہ۔ کسے اندازہ تھا کہ کپتان کو شست میں رکھ کر سی آئی اے، ایم آئی فائیو، موساد، را اور ایلومیناٹی اپنا مہلک وار عثمان بزدار پر کر دیں گے۔ اہم تاریخی ناول ”پھٹتے آموں کا کیس” میں محمد حنیف نے بھی ایسا ہی معاملہ بیان کیا ہے کہ جب یہ ساری ایجنسیاں مسکراتے مجاہد جنرل محمد ضیا الحق اور خاموش مجاہد جنرل اختر عبدالرحمان کو ہٹانے میں سرگرم ہوئیں تو سب سے پہلے انہوں نے جنرل ضیا کے محافظ بریگیڈئیر طارق محمود کو راستے سے ہٹایا تھا۔ پھر انہوں نے اپنے مرکزی ہدف پر وار کیا جب بچانے والا ہی چلا گیا تو وار کامیاب ہوا۔ یہی معاملہ پنجاب میں ہوا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ کن روحانی طاقتوں کے اشارے پر کپتان نے ”ع” کے نام والوں کو اہم عہدوں پر فائز کیا۔ کپتان کا اپنا نام عین سے شروع ہوتا ہے اور اسے عین ہی موافق آتا ہے۔ ساری دنیا نے اس پر دباو ڈالا، کپتان کے اتحادی اس کے پیچھے پڑے، افسران قضا و قدر نے اپنے تحفظات ظاہر کیے، کپتان کے مخالفین نے اس کا مذاق اڑایا کہ کس بھوندو شخص کو پنجاب کا حکمران بنا دیا ہے، مگر کپتان کا اعتماد متزلزل نہ ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ جب تک عثمان بزدار جیسا یار وفادار اس کے سامنے چٹان کی طرح مضبوطی سے زمین میں گڑا ہے، کوئی دشمن اس پر وار نہیں کر پائے گا۔دشمن خفیہ ایجنسیاں بھی جان گئی تھیں کہ کپتان کو اگر راہ سے ہٹانا ہے تو عثمان بزدار پر وار کرنا ہو گا، پھر ہی کپتان ہارے گا۔ انہوں نے نہایت چالاکی سے اس طوطے کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جس میں کپتان کی جان تھی۔ اب کپتان نہایت غیر محفوظ ہے۔ نہ صرف ایک قابل اعتماد عین، غین ہو گیا ہے بلکہ پنجاب کی سربراہی بھی تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکل کر قاف لیگ کے پاس چلی گئی ہے۔ دشمنوں کا کام آسان ہو گیا۔سی آئی اے، ایم آئی فائیو، موساد، را اور ایلومیناٹی دس بیس سال نہیں بلکہ ایک صدی آگے کی سوچتے ہیں۔ انہیں پتہ تھا کہ جس طرح کپتان رحمت اللعالمین اتھارٹی بنا رہا ہے، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں روحانی مرکز بنا چکا ہے، عبدالقادر روحانی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ چکا ہے اور روحانیت کو سپر سائنس بنانے والا ہے، تو جلد ہی ان مراکز سے درویشوں کی ایسی زبردست فوج اٹھے گی جو فزکس کے قوانین کو تہہ و باطل کر دے گی، زمان و مکان کی قیود ان پر منطبق نہیں ہوں گی، امریکہ اور بھارت وغیرہ کے مریخ پر کالونی بنانے سے پہلے یہ صوفی اور درویش زہرہ کو بارہا حاصل کر چکے ہوں گے۔ عالم اسلام روئے زمین اور کائنات میں ایک ایسا عروج پائے گا جو پہلے چشم فلک نے نہیں دیکھا ہو گا، اس لیے مغرب کی اس عبرتناک شکست کو روکنے کی خاطر کپتان کو ہٹانا لازم تھا۔ورنہ عثمان بزدار سے بھلا کسے دشمنی تھی؟ وہ درویش تو ایک ایسے تنگ و تاریک گھر سے اٹھ کر آیا تھا جہاں بجلی تک نہیں تھی۔ فطرت ایسے ہی لالے کی حنا بندی کرتی ہے۔ کسی کو گمان ہی نہیں تھا کہ عثمان بزدار کی یہ محرومی ایک دن اس کی وہ واحد خوبی ثابت ہو گی جو اسے پنجاب کا حکمران بنا دے گی۔اور ملک کے لیے اس بندے کی اہمیت دیکھیں، جہاں ایک طرف جنوبی پنجاب کی محرومی کی شکایت عثمان بزدار کے حکمران بننے سے دور ہوئی وہاں سندھ والوں کا شکوہ دور ہوا کہ سارے لطیفے سندھی وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ پر کیوں بنتے ہیں؟ بزدار کے آتے ہی سارے لطیفوں کا رخ پنجاب کی جانب ہو گیا۔ قوم کی اتنی زیادہ توجہ اور محبت عثمان بزدار سے زیادہ صرف ایک ہی شخص حاصل کر پایا، اور وہ تھا اس کا قائد، کپتان۔
٭٭٭