دنیا بھر میں جب سے یہI-PHONEآیا ہے معاشرے میں بدلائو پیدا ہوگیا ہے، ملنے جلنے کا رواج ختم ہوگیا ہے دوسرے ملکوں کی بات ہم نہیں کرینگے لیکن ہمارے ملک پاکستان میں جواب اپنا ملک کم ہی نظر آتا ہے۔ بہت خرافات گھس چکی ہیں معاشرے میں اور چونکہ بے روزگاری انتہا پر ہے۔ بہت سے چرب زبان لڑکے اور لڑکیاں وی لاگر بن گئے ہیں اور مال بنا رہے ہیں کوئی پاکستان ریلوے دکھا رہا ہے۔ کوئی گلیاں گھما رہا ہے، کسی نے اپنے اپنے چینل بنا لئے ہیں۔ اور جب باہر سے کوئی وی لاگر آتا ہے تو وہ ان کے ساتھ مل کر تاریخی مقامات، کھنڈرات، سیاحت کے مقام اور سب سے بڑھ شہر شہر اسٹریٹ فوڈ کے ویڈیو بنا کر یوٹیوب کو بھرتے رہتے ہیں۔ اور انکی مقبولیت یعنی دیکھنے والوں کی تعداد کے حساب سے یوٹیوب اپنے اشتہار دے کر وی لاگر کو ڈالر میں ادائیگی کرتے رہتے ہیں۔ وی لاگر نئے سے نئے کرتب دکھاتے ہیں مثال کے طور پر جرمنی کے ابرار احمد پورے افریقہ کی سیر کرا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں گھماتے اور موٹرسائیکل پر ویران سے ویران اور خطرناک جگہوں پر لے جاتے ہیں جہاںB.B.Cکی بھی پہنچ نہیں ہوسکتی ہے اور گھروں میں رات کے وقت لوگ اپنی اپنی پسند کی چیزیں دیکھتے ہیں۔ پاکستانی لڑکیاں جو باہر ملکوں میں رہ کر انگریز بن چکی ہیں باہر سے آئے وی لاگر کے ساتھ مل کر ذاتی معلومات فراہم کرتی ہیں۔
پچھلے ہفتے یوٹیوب پر اسٹریٹ فوڈ دکھانے والے وی لاگر نے لاہور میں ایک لڑکی وی لاگر کو ساتھ لیا اور لاہور کی گلی اور سڑکوں پر بکھرے ہوئے خونچے اور ریڑھی والے کٹاکٹ، لسی، پائے نہاری کے مزے دیکھنے والوں تک پہنچاتے رہے ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ امریکی وی لاگر کو کٹاکٹ دوکان پر لے جا کر بکرے کےTESTICLESفوتوں کے فوائد بتا رہی تھیں کہ اس کے استعمال سے مردانگی بڑھ جاتی ہے۔ اور ہنس رہی تھیں کانٹے میں فوتے کا ٹکڑا لے کر کھاتے ہوئے امریکی وی لاگر بھی حیران تھا جب اُسے بتایا گیا کہ کٹاکٹ میں گردے اور فوتے سب کی پسند ہیں جب اس نے پوچھا کیا عورتیں بھی کھاتی ہیں جواب تھا ”میں کھا رہی ہوں نا” ہمارے پاکستان میں جب سے اسکول میں تعلیم کا بدلائو آیا ہے اور انہیں آزادی مل گئی ہے وہ جیسے دوسروں کو بھی ترغیب دے رہی ہیں۔ جب کہ پڑوسی ملک ہندوستان کی وی لاگر سکھوں کے گوردوارے یا مندر دکھاتی ہیں۔ کشمیر دکھاتی جاتے ہیں۔ ہر بات کے پیچھے ایک سازش چھپی ملتی ہے مثال کے طور پر ہم پاکستان گئے تو خیال آیا کہ چھوٹی لائن پر واقعہ سندھ کا چھوٹا اور مشہور شہر جھڈو دیکھنے جائیں جہاں ہمارے بچپن اور لڑکپن گزرا تھا حیدر آباد اسٹیشن گئے تو معلوم ہوا جھڈو کی چھوٹی لائن ختم کردی گئی ہے۔ اور اب بس ہی ہے وہاں جانے کے لئے۔ یہ ترقی کی ہے پاکستان میں بتایا گیا جگہ جگہ آرام دہ ائیرکنڈیشن بسیں چلتی ہیں جو آرمی کے بڑے لوگ چلا رہے ہیں مطلب بسیں نہیں بلکہ بزنس پھر ہمیں یاد آیا کہ سعودی عرب جو مالا مال ہے مدینہ سے مکّہ بسیں کیوں چلاتا ہے جو تکلیف دہ سفر ہے کیوں ٹرین نہیں چلاتا۔ اللہ نے یا سعودی انتظامیہ نے بسیں ختم کرکے ہائی اسپیڈ ٹرین چلا دی جس سے اُنن کے ہی شہزادوں اور جاننے والوں کا اربوں کا بزنس ختم ہوگیا۔ لیکن اب یہ پیسہ ملک کے خزانے میں جاتا ہے۔ شہزادے صاحب بڑے بزنس مائند ہیں وہ چاہتے تو ٹرین فری بھی کرسکتے تھے جیسا کہ یورپ کے بہت سے شہروں میں بسیں فری ہیں اور حکومت کو خسارہ نہ ہوتا کہ پورے سال لوگ حج کی سعادت پاتے ہیں اور وہاں جا کر بڑے ہوٹلوں میں پڑتے ہیں شاپنگ کرتے ہیں۔
بات وی لاگر اور معاشرے میں بدلائو کی ہو رہی تھی۔ مطلب یہ تھا کہ جہاں دوسرے ملکوں میں سوشل میڈیا عوام کو آگاہی دیتا ہے وہیں پاکستان کا میڈیا خرافات دکھاتا رہتا ہے۔ وی لاگ اور ڈراموں کے ذریعے ان پر کوئی پابندی نہیں اور سب سے زیادہ بے حیائی ٹک ٹاک پھیلاتا ہے جہاں لڑکیاں آکر اپنے جلوے دکھاتی ہیں۔ ڈانس دکھاتی ہیں حکومت چاہے تو ٹک ٹاک بند کرسکتی ہے چاہے تو شرافت کا پیمانہ مقرر کرسکتی ہے جیسا کہ بھارت نے کیا ہے جو ٹی وی کے ذریعہ اپنے140کروڑ عوام میں شعور بیدار کر رہا ہے۔ اور یہ کام سونی ٹی وی پر امیتابھ بچن کئی سالوں سے ”کون بنے گا کروڑ پتی لا کر کر رہے ہیں کہ کونے کونے سے غریب ماں با کے بچے عرصہ تک تیاری کے بعد اس پروگرام میں شریک ہو کر لاکھوں روپے بنا رہے ہیں اور سب کو پرامید کر رہے ہیں صرف اس بات سے۔ پڑھو اور دن رات پڑھو، تاریخ مذہب، زبان اور حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرو۔ کہ بعض اوقات مقابلے میں شریک کوئی غریب کسان، یا درزی کا بچہ یا بچی کروڑوں لوگوں کی نظر میں بس کر ہیرو بن جاتا ہے ایسی ہی ایک21سالہ لڑکی جو علم کی جستجو میں ہے۔ اعلیٰ ملازمت کے امتحان کی تیاری کر رہی ہے ماں بچپن میں مر چکی ہے باپ نے شادی نہیں کی ہے اور اپنے نانا کے ساتھ ایک خستہ حال مکان میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ گھر کی صفائی، کچن کا کام کھانا پکانا سب کچھ کرتی ہے اور کون بنے گا کروڑ پتی میں آکر چھ لاکھ چالیس ہزار روپے جیت کر اپنی اور گھر کی زندگی کی کا یا پلٹ دیتی ہے ایسا کرنے کے لئے اُسے کسی سفارش یا جان پہچان کی ضرورت نہیں ہوتی جب وہ امیتابھ بچن کے سامنے کرسی پر بیٹھتی ہے تو لوگ سوچتے ہیں یہ صرف اسکی ذہانت ہے چہرہ نہیں اور آخر میں وہ سب کی دل پسند بن کرجاتی۔ درمیان میں جو باتیں ہوتی ہیں اور اس کے جواب بن کر پتہ چلتا ہے کہ ہر چند مودی اور اسکی شوسینا کچھ بھی کرے لیکن وہاں لوگ آگے بڑھ رہے ہیں اپنے ماں باپ سے جڑے ہوئے ہیں اپنے پڑوسی کا خیال رکھتے ہیں باپ چلا جائے تو چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے قربانیاں دیتے ہیں اور سادہ کپڑوں میں سادگی سے اپنی زندگی میں کامیابیاں لے آتے ہیں۔
کیا پاکستان میں ہمارے درجنوں میڈیا میں سے کوئی ایک بھی ایسا کوئی کام کر رہا ہے جو اب ملے گا۔ نہیں، خوبصورت لڑکے لڑکیاں اور محل جیسے گھروں میں مالدار لوگوں اور انکے بچوں کی خرافات کو دکھایا جارہا ہے حالیہ ڈرامہ(GEO)”جان نثار” جو ختم ہونے والا ہے واہات اور بے غیرتی کا منہ بولتا اشتہار ہے۔ نہ تو لکھنے والے کو شرم ہے جو عورت ہے نہ ہی پروڈیوسر کو ہم مانتے ہیں پاکستان میں یہ ہو رہا ہے پہلے بھی یہ ہوتا تھا لیکن بجانے اس کے کہ بھارت کے میڈیا کو جواب دیں کہ وہ نئی نسل کو جذبے سے بھرپور کر رہا ہے۔ ہر کسی کو اردو بلوا رہا ہے۔ اور زندگی میں آگے بڑھنے کا سبق دے رہا ہے لیکن ایسا نہیں ہوگا کہ ہمارے فنون لطیفہ اور کلچر کے اندر بھارتی اور بیرونی ممالک کےG.O,Sچھپے بیٹھے ہیں ہر چند کہ اُن کے نام، زیدی، خان، کاظمی اور قرآن سے لئے گئے ہیں لیکن کردار بے غیرتی کے کر رہے ہیں کہ عرصہ سے ہم ”جیو”، ”اے آر وائی” اور ”ہم” کی دوڑ دیکھ رہے ہیں ہم نے پوری طرح گھروں میں گھس کر ہماری نئی جنریش کو اردو اور اپنے لباس سے دور کر دیا ہے تمام ماڈلز جو بیرونی پیداوار ہیں کو اداکار بنا کر دنیا کو دکھایا ہے یہ ہے پاکستان۔
بھارت کی سیاست میں بھی خرافات اور سازشیں ہیں لیکن وہ سب بھارتی بن کر آتے ہیں حیرانی ہوتی ہے کہ وہاں کوئی جنرل یا کرنل میڈیا پر آکر بڑنگیں نہیں مارتا بگلا بھگت نہیں بنتا اور اگر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا جس تیزی سے معاشرے، اور معیشت میں بگڑائو آیا ہے اس کے پیچھے ہماری فوج کے بہادر جنرلز ہیں جن کی تعداد بہت ہے اور انہیں پاور ہے جو چاہیں کریں جیسے چاہیں حکومت دے کر راج کریں جمہوریت کے نام پر ایک گھنائونا کھیل کھیلیں کھیلتے رہیں نئی نئی سازشیں کرتے رہیں عمران خان جو جیل میں بند ہے کے خلاف محاذ بناتے رہیں اور ان خرافات، کو لندن لے جاکر بتائیں کہ پاکستانی کتنے گر چکے ہیں۔ لندن میں جمائمہ(عمران کی سابقہ بیوی) کے سر نے کی رہائش کے سامنے اس کی ماں کے خلاف پاکستانیوں نے نہایت بے ہودہ نعرے بازی کی۔ لندن میں ان بدمعاشوں کوئی قانون عائد نہیں ہوتا جلد ہی ان پر جوتے پڑینگے عمران خان کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں چانسلر کے درخواست پر پاکستان کے ڈاکوئوں نے وہ باتیں کیں کہ لگتا ہے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا رہا ہے کوئی!!!۔
٭٭٭٭٭