”ایک اور نازک دور”

0
8

”ایک اور نازک دور”

سالوں سے سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے ، ملک کی معیشت ڈاوں ڈول ہے ، کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، کئی نامور حکمران آئے اور چلے گئے لیکن ملکی حالات جوں کے توں اپنی ڈگر پر قائم ہیں ، ہر سال ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتا ہے اور رواں برس بھی یہی باز گشت متواتر سنائی دے رہی ہے کہ آئی ایم ایف نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے جبکہ دوست ممالک نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں، اب معیشت کا بچنا ممکن نہیں ، لیکن پاکستانی معیشت کسی نہ کسی شکل میں اپنی ڈگر پر قائم و دائم ہے ۔حکومتی ٹیم سے الگ ہونے والے ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے، معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور قرض کے وینٹی لیٹر پر زندہ ہے ، معیشت ڈوب رہی ہے لیکن اسلام آباد جائو تو لگتا ہے کہ سب نارمل ہے۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ملکی معیشت کا پردہ فاش کرتے ہوئے حکومت شاہانہ اخراجات پر سوال اٹھا دیئے،معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور قرض کے وینٹی لیٹر پر زندہ ہے ، تاہم اب آئی ایم ایف اور دیگر دوست ممالک بھی مزید قرضے دینے سے گریزاں ہیں اور نجکاری کا عمل بھی تعطل کا شکار ہے، کیونکہ کوئی بھی سرکاری اداروں کے لیے بولی نہیں دے رہا۔ایک ملک کے دیوالیہ ہونے سے پہلے جو علامات ظاہر ہوتی ہیں ان میں سب سے بڑی علامت کسی ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اور ان کے مقابلے میں بیرونی قرضوں کی کتنی قسطیں اور ان پر سود کی کتنی ادائیگی ہونی ہے اس پر منحصر کرتا ہے۔ جب ملک کے جاری کھاتوں (کرنٹ اکاؤنٹ) کا خسارہ بہت زیادہ بڑھ جائے اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوں اور اس کے مقابلے میں بیرونی قرضے کی قسطیں اور ان پر سود کی ادائیگی ایک مسئلہ بن جائے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے ک طرف بڑھ رہا ہے۔ ملک میں درآمدات (امپورٹ) زیادہ ہوتی ہیں ا ور اس کے مقابلے میں برآمدات (ایکسپورٹ) اس رفتار سے نہیں بڑھ پاتیں کہ درآمدات پر بیرون ملک جانے والے ڈالر برآمدات کی صورت میں واپس آئیں اور اس کا دباؤ زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑتا ہے کیونکہ وہاں سے درآمدات کے لیے ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ اس ادائیگی کی وجہ سے بیرونی قرضے کی قسط اور اس پر سود کی واپسی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ بیرونی قرضے کی ادائیگی بھی ڈالر میں کرنی ہوتی ہے۔ جب کوئی ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتا ہے تو اس کی جانب سے بین الاقوامی مارکیٹ میں قرضے لینے کے لیے جاری کیے جانے والے بانڈذ بھی زیادہ شرح سود پر لیے جاتے ہیں یعنی ملک کو ان بانڈذ میں انویسٹ کرنے والوں کو زیادہ منافع دینا پڑتا ہے اور بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے اس ملک کی ریٹنگ کم کر دی جاتی ہے۔اس سے عالمی منڈی میں ملک کی کریڈٹ ریٹنگ بہت گر جاتی ہے اور عالمی اداروں اور دوسرے ممالک کی جانب سے مزید قرض کی سہولت نہیں ملتی۔ دیوالیہ ہونے کی صورت میں کرنسی کی قدر روازنہ کی بنیادوں پر بہت تیزی سے گرنا شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ وینزویلا میں ہوا کہ جب یہ ملک دیوالیہ ہوا تو اس کی کرنسی اس قدر بے وقعت ہو گئی تھی کہ یہ سڑکوں پر بکھری رہتی تھی اور لوگ اس پر چلا کرتے تھے،پاکستان نے 1999 میں ایک بار جزوی طور پر ڈیفالٹ کیا تھا جب پاکستان نے فارن ایکسچینج بانڈذ میں پاکستانیوں کو ادائیگی پر ملک ڈیفالٹ کر گیا تھا لیکن وہ بھی ایٹمی دھماکوں کے بعد لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے ہوا تھا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی حکمران اپنی سوچ اور پالیسی کو کب بدلیں گے ، ہر نئی حکومت پرانی ڈگر پر کیوں چل پڑتی ہے ، کوئی نیا روڈ میپ، معاشی پلان کیوں متعارف کروایا نہیں جاتا ہے ، سیاست صرف انتقامی کارروائیوں کے گرد گھوم کر رہ گئی ہے ، وزیراعظم ہائوس ، صدارتی ہائوس اور اب تو آرمی ہائوس جی ایچ کیو میں بھی صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر کام ہو رہا ہے اور وہ ہے کہ عمران خان کیخلاف نیا کیس کونسا دائر کیا جائے اور اس کیخلاف مزید انتقامی کارروائیوں کو کیسے پروان چڑھایا جائے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ پورے ملک کی حکومتی مشینری صرف ایک مخصوص جماعت ، ایک مخصوص شخص کے خوف میں مبتلا کر اس کے خلاف برسر محاذ ہو جائے، عوام کی کسی کوکوئی فکر نہیں، لوگ بجلی کے بلوں سے اُکتا کر خودکشیاں کر رہے ہیں ،مہنگائی، بے روزگاری آسمانوں سے باتیں کررہی ہے جبکہ پوری حکومت صرف ”عمران خان” کا راگ الاپ رہی ہے، اب اس سوچ کو تبدیل کرکے آگے بڑھنے کا وقت ہے ، ہمارے حکمرانوں اور کرتا دھرتائوں کو اب ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here