ریاستی دہشت گرد!!!

0
6
شبیر گُل

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ریاست ماں ہوا کرتی ہے جو ہر شہری سے برابر پیار کرتی ہے۔ مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ ریاست کے رکھوالے۔ درندے اور جانور بن گئے ہیں۔ اپنے ہی شہریوں پر زمین تنگ کرتے ہیں۔جسے چاہے غائب کرتے ہیں۔ آدھی رات کو گھروں سے اٹھاتے ہیں ۔خود ہی عدالت لگاتے ہیں ۔ غداری اور وطن دشمنی کے سرٹیفیکٹ بانٹے ہیں۔ ٹی وی میڈیا پر اور عام لوگوں کی آواز بند کرتے ہیں۔ یہ ظلم، جبر اور زیادتی لوگ کب تک برداشت کرینگے۔ نوجوان نسل میں بغاوت کی بو آرہی ہے۔ ریاست مخالف لاوا پک رہا ھے۔ جس کے آلا میں سبھی بھسم ہوسکتے ہیں۔ ۔قوم کو پہلے معاشی اور سیاسی دہشتگردوں کا سامنا تھا۔ اب ریاستی دہشتگردوں کا سامنا ہے۔ جنہوں نے ملک کی خفاظت کی بجائے نظام حکومت سنھبال رکھا ہے۔ ہر ادارے میں سابق فوجی بیٹھا ہے۔ زبردستی کا ماحول ہے۔ جب ریاست زور زبردستی کرئے گی تو آواز تو اٹھے گی۔اس آواز کو بغاوت قرار دینا۔ غداری کا سرٹیفیکٹ دینا، اداروں سے نفرت پیدا کرتا ہے۔لوگوں میں بددلی پھیلتی ہے۔ اوورسیز پاکستانی جو ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کیطرح ہیں۔سرمایہ ملک میں بجھواتے ہیں۔ انکی فیملیز اپنے ہی وطن میں مخفوظ نہ ہوں۔ انکی کہیں شنوائی نہ ہو۔ تو اوورسیز پاکستانی ان مظالم کا اظہار سوشل میڈیا پر کرتے ہیں۔ جو انکا بنیادی حق ہے۔انکے اس حق کو دہشت گردی گردانا جاتا ہے۔ریاست کے خلاف بغاوت قرار دیا جاتا ہے۔جبر کے اس ماحول کوسوشل میڈیا پر اگر کوئی اوورسیز پاکستانی بیان کرتا ہے۔ مظالم کو لکھتا ہے۔ ظالم درندے پاکستان سے انکے عزیز واقربا، باپ، چچا ،بھائی، بہنوئی ،کسی کو گھر سے اٹھاتے ہیں ۔ مار پیٹ کرتے ہیں ۔ ان کی درندگی اور فاشزم کا کوئی عدالت نوٹس نہیں لیتی۔ اس دہشت و وحشت کا سرغنہ ایک میجر یا برگیڈیر ہوتا ہے ۔ جو بیرون ملک پاکستانیوں کو اسکے باپ، بھائی، بہنوئی یا چچا کی چیخیں سنواتا ہے۔ دھمکاتاہے کہ اگر اس اوورسیز پاکستانی نے اپنی پوسٹ ڈیلیٹ نہ کی تو گھر کے دوسرے افراد بھی اٹھالئے جائینگے۔ ریاست کے تنخوادار بزدل آفیسرز عوام کی آواز کو اسطرح کیسے دبا سکتے ہیں۔ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ عوام الناس کو پنجاب پولیس کیطرح ٹریٹ کرنے سے عوام ان سے محبت کرئے گی۔؟ پھولوں کے ہار پہنائے گی۔؟یہ ناممکن ھے۔ یہ کام ھم نے مشرقی پاکستان میں کرکے دیکھ لیا ۔ جس کا نتیجہ پاکستان کا ایک بازو ھم سے کٹ گیا۔ ریاستی ادارے یہی کام بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں کررہے ہیں۔ جس سے عوام کے غیض وغضب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی سفاکیت زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ کیا وجہ ہے کہ آج پولیس اور فوجی چوکیوں، فوجی اور پولیس کی گاڑیوں ،پر حملے ہو رہے ہیں۔سیکورٹی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔اس کی بنیادی وجہ جبر اور زور زبردستی ہے۔ خاکی وردی کبھی عزت و وقار کی علامت تھی۔ جسے جرنیلوں نے بے توقیر کردیا ہے۔ اسی لئے ریٹائرمنٹ کے بعد جرنیل، برگیڈیر اور کرنل ،ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ھے کہ اپنے گھنانے کارناموں کی وجہ سے پاکستان میں سانس لینا مشکل ہو گا ۔ اس لئے ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ آئی ایس آئی کے ایجنٹوں نے اندرون ملک لوگوں کی زندگی تو اجیرن کی ہے۔ اب وہ بیرون ملک اوورسیز پاکستانیوں میں آئی ایس آئی کے مخبر اور ایجنٹ چھوڑتے ہیں جو محب وطن ہونے کا سرٹیفیکٹ فراہم کرینگے۔ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ریاستی ادارے اتنے فاشسٹ ،اتنے بزدل اور کمزور ہونگے کہ انہیں ہر جگہ اپنے ٹاٹ بھرتی کرنے پڑیںنگے ۔ نان الیون کے بعد مسلم اور خصوصا پاکستانی کمیونٹی پر کڑا وقت گزرا۔ کیونکہ لوگوں نے اپنے ناپسندیدہ لوگوں کے خلاف مخبریاں کیں، جھوٹی شکائیتیں لگائیں۔ اپنے ہی لوگوں کی زندگیاں اجیرن کیں۔آج اسی طرز کی مخبریاں اور شکائیتیں آئی ایس آئی کے ایجنٹوں کو فراہم کی جارہی ہیں۔ جس کی بنیاد پر اوورسیز پاکستانیوں کی فیملیز کا گلہ اپنے ہی ملک میں دبایا جارہا ہے۔ انکے ہاتھ لمبے اور پہنچ ہر جگہ ہے ایک امریکن جج کے بقول کہ یہ عناصر پیسوں کے لئے ماں بھی بیچ دیتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیز بیرون ملک اپنی ساری زندگی چودہ اگست پر جلسے جلوس اور تئیس مارچ قرارداد پاکستان کی حمایت میں جشن منانے میں گزار دیتے ہیں ۔ بیرون ملک پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرانے کی تگ ودو میں رہتے ہیں ۔ اب انہیں اپنی پاکستانیت کا سرٹیفیکیٹ ان اداروں سے چاہئے۔ جو ریٹارمنٹ کے بعد ملک میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ ہر تین سال بعد اقتدار پر شب وخون مارنے والے درندوں کو چاہئے۔اپنے سر میں خود ہی خاک نہ ڈالیں ۔ کیا وردی والے اس سے عوام میں محبت اور عزت پا لینگے۔؟ کیا یہ غنڈے کہیں جواب دے ہیں یا نہیں۔؟ کیا کوئی عدالت ان سے باز پرس کرسکتی ہے یا نہیں۔ ؟ کیا یہ ملک اس لئے بنایا تھا کہ اسے جس کی لاٹھی اسکی بھینس کیطرح چلایا جائے۔؟ کیا ملک اس لئے بنایا تھا۔کہ حق بات کہنے پر گھر سے اٹھا لئے جائیں۔؟ یا ملک اس لئے بنایا تھا کہ پارلیمنٹ، عدالتیں اور نظام مملکت خاکی وردی والے چلائیں۔ ؟
کیا لاکھوں افراد نے اپنی جانوں کے نذرانے اس لئے پیش کئے تھے کہ بات کرنے کی آزادی نہ ہو؟- یا ملک اس لئے بنایا تھا کہ ملک کے تمام وسائل پر یہ لوگ قابض ہوں ؟۔ کیا ملک اس لئے بنایا تھا کہ وردی والے قبر میں جانے تک عہدہ اور مراعات نہ چھوڑیں۔ ؟ کیا ملک اس لئے بنایا تھا کہ انتخابی سسٹم اور پارلیمنٹ چند الیکٹیبلز کے ہاتھ میں ہو؟۔ یا ملک اس لئے حاصل کیا تھا کہ ایک برگیڈیر یا کرنل من پسند لوگوں میں انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کرے ۔؟ قارئین!۔ آپ کا جواب یقینا نفی میں ھوگا۔ ؟
آپ کو بالکل حیرانگی نہیں ھوگی کہ ان لوگوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں ۔ یہ لوگ مملکت خداداد میں پاکستان مخالف قوتوں کو سپیس فراہم کرتے ہیں۔ راز دیتے ہیں۔ جس کی بدولت انکی طاقت کا جادو ہر جگہ سر چڑھ کے بولتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ انکے تنخوادار پالتو ہر جگہ موجود ہیں ۔ جو لمحہ بے لمحہ انہیں کمیونٹی کی رپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ اگر ریاست کو کسی شہری سے خطرہ ہے ۔ تو کورٹ موجود ہے ، کورٹ میں بلائیں۔ ڈاکوں کیطرح رات کو گھروں میں گھس جانا۔ عورتوں کو اٹھانا۔ ننگا کرنا۔ مار پیٹ کرنا، گھرتوڑنا، کاروبار تباہ کرنا۔ بیڈ روم اور باتھ روم میں ننگی ویڈیوز بنانا ۔ ریاستی اداروں نے یہ کہاں سے سیکھا ہے۔ کیا ان آفیسرز نے اس کا خلف اٹھایا ہے کہ لوگوں کے کپڑے اتاریں گے۔ بہو بیٹیوں کی عزت پامال کرینگے۔ یہ کام تو را اور اسرائیلی کتے بھی مسلمانوں کے ساتھ نہیں کرتے۔ ریاستی ادارے اپنے ہی ملک میں دہشت پیدا نہ کریں۔ پاکستان مزید نفرت کا متحمل نہیں ھوسکتا۔ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو آئی ایس آئی کے ان دہشت گردوں کو لگام دینا ھوگی۔ وگرنہ بنگلہ دیش کے حالات آپکے سامنے ہیں۔ عوامی طاقت نے جبر اور ظلم کو سرنگوں کردیا ہے۔ جو کل ظالم تھے آج چھپتے پھرتے ہیں انہیں کہیں جائے پناہ نہیں ۔بھارت اور ملتی باہنی کے پالتو ،رحم کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ اگر فوج چاہتی ہے کہ اس کا وقار بحال ھو، وردی کو بچے سلیوٹ کریں۔ تو انہیں غنڈہ گردی، دہشت، وحشت اور سفاکی ختم کرنا ھوگی۔ نہیں تو بلوچستان کیطرح نفرت کی لہر پورے ملک کو لپیٹ میں لے گی۔ ایک وقت تھا۔ افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کی عزت و تکریم تھی ۔لوگ اس پر جان چھڑکتے تھے ۔ آج آئی ایس میں راشی آفیسرز اور غنڈے بھرتی ھوچکے ہیں۔ جن کے نزدیک ظلم و زیادتی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ نوجوانوں کو بھی کسی بیرونی ایجنسی یا غیروں کے ہاتھ میں نہیں کھیلنا چاہے ۔اور نا ہی اپنے ملک کے خلاف کسی کے ایجنڈے پر کام کرنا چاہئے۔ اور نہ ہی کسی غیر کی زبان۔ میرا ملک پھولوں کا گلدستہ ہے۔اس کے چپے چپے کی خفاظت ھم سب پر فرض ہے۔اس کے زرے زرے کا احترام ھم پر مقدم ہے۔ اسکی اکائیوں کی مضبوطی ،ایک مظبوط ملک کی علامت ہے۔دوسری طرف پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم کی طرز سیاست سے باہر آنا ھوگا۔ چند گمراہ نوجوان دشمن کے ہاتھ میں نہ کھیلیں ۔ اور نہ ہی اپنے کندے دشمنان پاکستان کو فراہم کریں۔ ظالم جرنیلوں کی بدمعاشی پر ساری افواج کو گالی مت دی۔ یہ عوام اس فوج سے محبت کرتے ہیں جو سیاچین کے برفیلے پہاڑوں پر ملک کی خفاظت کرتے ہیں۔ جو کشمیر کی خطرناک چوٹیوں پر ملک کا دفاع کرتے ہیں۔ جو افغانستان کی سرحد اور سنگلاخ پہاڑوں کی نوکیلی چوٹیوں پر جان قربان کرتے ہیں۔آج ملک میں بندر تماشہ ،کرپٹ سیاسی عناصر کیوجہ سے ھے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے بوٹوں کے آگے لیٹ جاتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس میں ڈکٹیڑوں کے تلوے چاٹتے ہیں۔اپنی عزت ، غیرت اور پارٹی کو بوٹوں پر قربان کرتے ہیں۔انکی سیاست میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو ہے۔ 2013 کے الیکشن میں ن لیگ ۔2018 میں پی ٹی آئی کو اسٹبلشمنٹ نے جتوایا۔ اور پھر اقتدار سے باہر بھی کیا۔ بلی چوہے کا یہ کھیل پاکستانی معیشت کو برباد اور پاکستانی قوم کو مایوسی میں دھکیل رہا ھے۔ قانون کو کھیل تماشہ بنادیاگیاھے۔ جب قانون وانصاف کی دھجیاں اڑائی جائیں ۔ ظلم اور ناانصافی کی جائے۔تو پھر جان بچانے والوں کوبھی جان کا خطرہ رہتا ہے۔ ایسے ظالموں کو اپنی خفاظت کے لئے مزید سیکورٹی درکار ھوتی ھے۔ملک میں نظام عدل دفن ھو چکا ھے۔ نوجوانوں کا سسٹم سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کو نغمے، ترانے اور ڈراموں سے آگے بڑھنا چاہئے۔ نوجوان نسل کو تعلم وتربیت، ہنر، سکیل اور نظریاتی تعلیم کی طرف مائل کرنا چاہئے۔ کرپٹ اور کریمنلز عناصر – چوروں اور ڈاکوں پر اقتدار کے دروازے بند کرنے چاہیں۔کرپشن،ظلم، جبر اور ناانصافی سے پاک معاشرہ ہی ملک کومضبوط اور یکجا رکھ سکتا ہے ۔وسائل کی منصفانہ تقسیم معاشرہ میں اعتدال پیدا کرسکتا ہے۔ملک میں خوشخالی لا سکتا ہے۔نوجوان نسل میں فسٹریشن کم کرسکتا ہے۔ بزرگوں کی قربانیوں اور قائد کا خواب ۔یعنی فلاحی مملکت اور خوشخال معاشرہ قائم کر سکتا ہے۔قارئین کرام!۔ آپ نے شیر، تیر اور ٹائیگرز کا اقتدار دیکھا۔ لیکن ملک کو آئی ایم ایف کی گود میں پھینک دیا گیا۔ چوروں کے یہ ٹولے ہر دور میں پارٹیاں بدلتے ہیں ۔ نئے نعروں اور نئی پارٹی کو جوائن کرتے ہیں ۔عوام کو جھوٹ اور فینسی نعرے بہلاتے ہیں ۔ چند سال بعد عوام انہی تجربات کا سامنا کرتی ہے۔عوام کو ان کے جھوٹ وعدوں ، جھوٹے نعروں کو چھوڑ کر جماعت اسلامی کا ساتھ دینا ہوگا۔ صرف جماعت اسلامی اس ملک میں حقیقی جمہوریت، نظریاتی مملکت ،کرپشن سے پاک معاشرہ ، عدل و انصاف پر مبنی نظام حکومت قائم کرسکتی ہے۔ ملکی سلامتی، باعزت روزگار ۔ کرپشن سے پاک معاشرہ کے قیام کے لیے ایکبار جماعت اسلامی کو آزمانا چاہئے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here