ڈاکٹر ولایت حسین شاہ کا سفر آخرت!!!

0
10
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

ہمارے بہت ہی شفیق مہربان ، ہنس مکھ،خوش اخلاق، نمازی ، پرہیز گار، شب زندہ دار برادر بزرگ ڈاکٹر سید ولایت حسین شاہ صاحب موضع کنڈان تحصیل شاہ پور صدر ضلع سرگودہا میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں یتیم ہو گئے تھے ۔ بونگہ بلوچاں میں اللہ داد خان کی کفالت میں پروان چڑھے۔ سرگودھا اور لاہور میں جوانی گزری بیرون ملک کئی ممالک میں پریکٹس کی اور بالآخر باغ مصطفی میری لینڈمیں تدفین ہوئی۔ میں جمعرات 22 اگست2024 کو امام مہدی سینٹر رچمنڈ مجالس اربعین کیے جا رہا تھا کہ راستے میں لیاقت زیدی صاحب کی کال آئی اور بھابی صاحبہ سے بھی بات ہوئی پھر انکے فرزند ڈاکٹر علی شاہ سے بھی بات ہوئی ۔ معلوم ہوا شاہ صاحب کی طبیعت بہت ناساز ہے، دعا گو رہے ۔ جمعہ کے دن فواد شیرازی صاحب کا میسیج آگیا کہ شاہ صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون ہفتہ کو میں جنازہ کیلئے پہنچ گیا ۔ ظہرین کے بعد جنازہ پڑھایا ۔ اپنے ہاتھوں سے تدفین کی تلقینیں پڑھیں ادارہ جعفریہ میں مختصر سی مجلس بھی پڑھی تھی ڈاکٹر ولایت حسین شاہ بخاری ابن غلام جیلانی شاہ بخاری پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ تھے!
شاہ صاحب بہت عظیم مہمان نواز، غریب پرور، وضع دار، عزادار اور ولایت اہل بیت ع سے سرشار تھے۔ انکے بھائی ڈاکٹر منظور حسین شاہ اور ہمشیرہ مسز علی رضا شاہ کاظمی شکاگو میں مقیم ہیں۔ شاہ صاحب بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ بڑے عرصہ تک شب جمعہ اور نماز جمعہ کیلئے ادار جعفریہ کے کنجی بردار رہے۔ میں ہمیشہ جب ادارہ پڑھنے آتا تو شاہ صاحب کا مہمان رہتا۔ میرے لیے ہمیشہ مستعد رہتے تھے۔ اگر میں کبھی ہوٹل ٹھہر جاتا تو ناراض ہوتے اور صبح ناشتہ پر حاضری ضروری ہوتی یا لنچ پر ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں ادارہ جعفریہ، محمدیہ، شاہ نجف یا قلب شاہ کاظمی صاحب کے ہاں آیا ہوں اور شاہ صاحب کے ہاں حاضری نہ دی ہو۔ میرے شاہ فیملی سے تعلقات پاکستان سے تھے ،میرے ہم وطن اور ہم زبان تھے۔ علما کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے، بڑے صابر و شاکر تھے۔ انکو جب انکے جواں سال مرحوم بیٹے کامران حیدر شاہ کے پہلو میں دفن کیا گیا تو آہ و بکا کا عجیب منظر تھا، ادارہ جعفریہ والوں نے جنازے تدفین و مجلس میں شرکت سے حق ادا کر دیا۔ شاہ صاحب نے بیس سال کامران کا داغ مفارقت سہا۔ بیٹیوں اور بیٹیوں کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، گرینڈ چلڈرن بھی تربیت یافتہ ہیں۔بیماری کے باوجود مجالس میں حاضری دیتے۔ نماز بڑے اہتمام سے ادا کرتے۔ ہمیشہ سفید پوش رہتے۔ عموما با وضو رہتے ہیں جتنا عرصہ انکے گھر رہا کبھی تہجد کے وقت انہیں سوتا ہوا نہیں پایا۔ اگر کبھی مجلس میں نہیں آسکے تو آن لائن سنتے۔ المہدی ٹی وی کے باقاعدہ ناظر تھے۔ اپنے خاندان کے بہت لوگوں کی کفالت و مدد کرتے تھے، غیر خاندان کے افراد کی بھی مالی اخلاقی سماجی مدد کرتے تھے۔گھر میں یا باہر کبھی اونچے نہیں بولے دھیمے اندازمیں گفتگو کرتے۔تواضع فروتنی اور منکسر المزاجی انکا شیوہ تھا ، چلا تو ہم سب نے جانا ہے دیر یا سویر تاہم جسطرح شاہ صاحب کا خاتمہ علی الخیر ہوا ایسے ہی ہم سب کا خاتمہ ہو۔ مولیٰ علی ع کا ارشاد ہے ایسے مل جل کر رہو کہ جب مر جائو تو سب روئیں او جب تک زندہ رہو تو لوگ ہمیشہ تمھیں چاہیں۔وہ اس فرمان کا مصداق تھے ۔ شاہ صاحب کی ایک خوبی تھی کہ کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے۔ آپ کے داماد، بہو، بہنوئی، بہن بھائی، اہل خانہ ، رشتہ دار، دوست، احباب بلکہ اپنے برائے انکی خوبیوں کی تعریف کرتے ہیں۔ ہمارے وطن اور ادارہ جعفریہ کا ایک سرمایہ چلا گیا۔شاہ صاحب کو مرحوم لکھتے ہوئے وحشت ہو رہی ہے۔ شاہ صاحب ہم سب آپکی محبت و شفقت کے مقروض ہیں ۔ اللہ آپکو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل دے، ہم آپکو کبھی بھول نہ پائینگے باغ مصطفی میں تدفین کے وقت کتنے بزرگوں عزیزوں بھائی بہنوں کے کتبے دیکھے اور فاتحہ خوانی کی اللہ سب کے درجات بلند فرمائے۔ میرے بھائی بہنو ، بزرگوعزیزو!
کوشش کرو کسی کا دل نہ دکھائو، کسی کو اذیت نہ دو، حقوق خالق و مخلوق ادا کرو، مصیبت خدا اور اذیت مخلو ق سے پرہیز کرو تاکہ خاتمہ بخیر ہو ، این دعا ازمن واز جملہ جہاں آمین باد
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here