سنگاپور کی ایک بات جو مجھے بہت عجوبہ معلوم ہوئی کہ وہاں کے ریسٹورنٹ میں معزز مہمانوں کی آؤ بھگت کرنے کے بجائے اُنہیں شرمندہ کیا جاتا ہے، مثلا” گذشتہ ہفتے جب میں وہاں صبح کا ناشتہ کرنے ایک ریسٹورنٹ میں گیا تو وہاں دوسرے مہمانوں کے ساتھ لائن لگانی پڑی ، اُس کے بعد خراماں خراماں ایک چھوٹے سے اسٹول پر جاکر بیٹھ جانا پڑا،سنگا پور کے ریسٹورنٹ میں مہمانوں کیلئے کرسیاں نہیں ہوتی ہیں بلکہ جگہ کی قلت کے باعث چھوٹے چھوٹے اسٹول ہوتے ہیں اور وہاں آپ کو یہ استحقاق نہیں ہوتا کہ آپ ویٹر کوسروس کیلئے بلائیں ، بلکہ ویٹر جس کے پاس ایک گھنٹی ہوتی ہے وہ اُسے بجاکر مہمانوں کی توجہ مبذول کراتا ہے ، اور پھر اُنہیں بلاکر اُن کے آرڈر کو اُن کے حوالے کردیتا ہے، ایک ریسٹورنٹ میں تو میں نے دیکھا کہ وہاں ویٹر کی تو نہیں بلکہ مہمانوں کی نگرانی کیلئے ایک خاتون تعنیات رہتی ہے جو اُن کی سرزنش کرتی رہتی ہے، مثلا”اپنے ٹرے کو یہاں رکھیئے ، اور اپنے پانی کی بوتل اِس ڈسٹ بِن میں احتیاط سے رکھئیے تا کہ وہ ٹوٹ نہ جائیں، ایک مرتبہ تو کاؤنٹر پر موجود ریسٹورنٹ کے ایک اہلکار نے اپنے گاہک پر اِس طرح چیخا کہ ساراریسٹورنٹ لرز اٹھا،وہ بیچارا اپنے آرڈر میں کچھ ترمیم کرانے کیلئے گیا تھا،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِن ناک چپٹی والے لوگوں نے ریسٹورنٹ کو ہلاکو خان کا عقوبت خانہ بنا دیا ہے، مختصرا”یہ کہ وہاں ویٹرز عیش کرتے رہتے ہیں اور مہمانوں کی رگڑ ہوتی ہے جی ہاں اگر ویٹروں کی رگڑ شروع ہوجائے تو وہ فورا”نوکری چھوڑ کر کوئی اور کام کاج کریں،سنگاپور میں ویٹروں ، مزدوروں اور جسمانی محنت کام کرنے والوں کی اتنی زبردست قلت ہے جس کی وجہ کر ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، اور بہت سارے لوگوں نے کسی دوسرے کیلئے کام کرنے کے بجائے خود اپنا ریسٹورنٹ کھول دیا ہے. اِسلئے وہاں نیویارک سے کہیں زیادہ پاکستانی ریسٹورنٹ کے مالک ہیں. اُن کی خواہش معزز مہمانوں کو شرمندہ کرنا نہیں بلکہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ہوتا ہے، سنگاپور کے لٹل اِنڈیا میں جب میں حیدرآبادی بریانی کھانے گیا تو بریانی کیلے کے پتے میں پیش کی گئی جس کی وجہ کر بریانی کا آدھا مزا تو یونہی ضائع ہوگیا. کانٹا اور چمچہ بھی ندارد تھا جو اِس بات کا عندیہ تھا کہ بریانی ہاتھ سے کھائیں . میں تو چیخ کر کانٹا اور چمچہ لانے کا حکم صادر کرنے پر مجبور ہوگیا،درحقیقت سنگاپور میں صرف ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے ملازمین کی قلت نہیںبلکہ تمام شعبہ حیات میں کام کرنے کیلئے تجربہ کار اور ناتجربہ کار افراد درکار ہیں جن میں آئی ٹی کا معمولی تجربہ رکھنے والے افراد، انجینئرز ، بینکرز اور مزدوروں کی اشد ضرورت ہے. میں تو سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے آئی ٹی کے گریجویٹ جنہیں اپنے فیلڈ میں ایک سال کا تجربہ ہو سنگاپور جاکر اپنی قسمت آزمائی کرسکتے ہیں، پاکستان سے سنگاپور کا ورکنگ ویزا لینے میں گوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن وہاں جاکر کسی ایمپلائیرکو تلاش کرنے سے مسئلہ آسان بن جاتا ہے.ملازمت تلاش کرنے والے افراد کی تنخواہیں اُن کے تجربے کے بنیاد پر ہی طے پاتی ہیں، تنخواہ کی شرح ویسے ہی ہوتی ہے جو کسی مغربی ملک میں رائج ہے، ایک امریکی ڈالر 136 سنگاپور ڈالر کے برابر ہے. سنگاپور میں امریکا کے مقابلے میں ٹیکس کم ہے لیکن اخراجات زندگی برابر یا زائد ہے، ریسٹورنٹ میں پانی کی ایک بوتل تین اور چار سنگاپور ڈالر میں ملتی ہے لیکن وہی بوتل کسی سُپر مارکیٹ میں ایک ڈالر میں مل جاتی ہے،دنیا کے دوسرے ملک یا امریکا اور سنگاپورکے رہائشی قانون میں مماثلت یا فرق یہ ہے کہ آپ وہاں مستقلا”آباد نہیں ہوسکتے ہیں۔سنگاپور میں رہائشی فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ حیران کن ہے، کچھ نہیں تو دس ہزار کے قریب اسکائی اسکریپر ززیر تعمیر ہیںاور بعض لوگوں نے خصوصی طور پر چینیوں نے پورا فلور کا فلور بُک کرالیاہے، قیمت بھی امریکا کے برابر ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ سنگاپور ڈالر کی قیمت کم ہے، جب ہم مشرق بعید کے ممالک کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں مسلم پاور کا راز افشا ہوجاتا ہے جہاں کی نصف آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے،انڈونیشیا جو مشرق بعید کا ایک ملک ہے اور جس کی آبادی 276 ملین ہے جس کے 87 فیصد افراد مسلمان ہیں۔ اِسی طرح ملیشیا کے 67 فیصد آبادی مذہب اسلام کے پیروکار ہیں، آپ مشرق بعید کے جس کسی ملک کی سیاحت کر رہے ہونگے تو وہاں کی بیشتر خواتین حجاب پہنے ہوے نظر آئینگی ، زندگی کے مختلف شعبہ میں بھی اُن کی نمائندگی کا آپ کو احساس ہو جائیگا۔
بالی جو انڈونیشیا کا ایک صوبہ ہے اور جو اپنی فطرتی اور تاریخی مناظر کی وجہ کر دنیا بھر میں مشہور ہے اگرچہ وہاں کی غالب آبادی ہندو ہے لیکن گورے امریکی اور یورپی اِس طرح دندناتے ہوے نظر آئینگے
جیسے یہ کوئی اُن کے باپ کی ملکیت ہو. بالی کو دیکھ کر اپنا کراچی یاد آجاتا ہے جس کی خستہ حال دکانیں ، عمارتیں اور تنگ گلیاںجس میں تیز رفتار ٹریفک زگ زیگ سڑکوں پر رواں دواں رہتی ہے سیاحوں کو حیران کردیتی ہے لیکن جو بات قابل توجہ ہے کہ وہاں جرائم کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا. ہم لوگوں کا قافلہ خود
رات گئے دیر تک وہاں کی شاہراہوں پر مٹرگشت کرتا رہتا تھا لیکن وہاں کے ریسٹورنٹ اور دکانوں کو کھلا دیکھ کر صرف تعجب اور حیرانگی ہی ہوتی ہے، گزشتہ پانچ دنوں سے ہم یہاں مقیم ہیں لیکن آج تک کسی پولیس والے کو نہیں دیکھا، ساحل سمندر پر پولیس کیا کوئی لائف گارڈ بھی نہ تھا، بہرکیف اِن باتوں سے صرف یہی بات عیاں ہوتی ہے کہ جرائم سے پاک معاشرہ کیلئے پولیس کوئی کردار ادا نہیں کرتی ہے،