(1)آنحضرت جب چلتے تھے تونہایت متواضع اور باوقار انداز میں چلتے تھے۔ (2)جب کسی کو مخاطب کرتے تو اپنا پورا بدن اس شخص کی جانب پھیر لیتے ۔ (3)آپ کی نگاہیں ہمیشہ نیچی ہوتی تھیں ۔ (4)آپ ہمیشہ غور وفکر و تدبر میں رہتے ۔ (5)آپ غم و اندوہ میں ڈوبے رہتے ۔ (6)ضرورت کے علاوہ بات نہ کرتے تھے ۔ (7)آپ کے کلام میں فصاحت و بلاغت تھی کہ الفاظ کم اور معنی زیادہ ہوتے تھے ۔ (8)آپ کی عادات و اطوارمیں سختی اور درشت کلامی کا وجود نہ تھا ۔ (9) آپ کسی کو حقیر نہ سمجھتے تھے۔ (10)حق کو اجاگر کرنے والے تھے ۔ (11)آپ خوش اخلاقی اورنرمی سے پیش آتے تھے ۔ (12)آپ تھوڑی سی نعمت کو عظیم نعمت سمجھتے تھے۔ (13)آپ کسی نعمت کی مذمت نہ فرماتے۔ (14)کھانے پینے کی اشیا میں جو اچھی لگتی کھالیتے اور جو پسند نہ کرتے بغیر اس کی مذمت کئے اس کو چھوڑدیتے ۔ (15)دنیوی امور میں گھاٹیپر افسوس نہ کرتے اور نہ غمگین ہوتے۔ (16)خدا کے لئے اس طرح غضبناک ہوتے کہ کوئی آپ کو پہچان نہ سکتا تھا ۔ (17)اگر اشارہ کرنا ہوتاتو اپنی انگلی سے کرتے نہ کہ آنکھ یا ابروسے ۔ (18)جب خوش ہوتے تو بہت زیادہ اظہار مسرت نہ کرتے ۔ (19)آپ ہنستے وقت تبسم فرماتے اور شاذونادر ہنستے وقت آپ کی آوازسنائی دیتی ۔ (20)آپ باربار فرماتے کہ جو حاضرہے وہ میرا کلام غائب کو پہنچائے۔ (21)آپ فرمایاکرتے تھے کہ ان لوگوں کی حاجات مجھے بتائو جو اپنی حاجات مجھ تک نہیں پہنچاسکتے ۔ (22)کسی کا اس کی لغزش اور خطا پر مواخذہ نہ فرماتے ۔ (23)۔اصحاب اور طالب علموں میں سے جو بھی آپ کی محفل میں داخل ہوتا علم وحکمت سے دامن بھر کرواپس آتا۔ 24۔آپ لوگوں کے شرسیواقف تھے پھر بھی ان سے کنارہ کشی نہ کرتے تھے ۔ 25۔آپ لوگوں سے خوش روئی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ 26۔آپ ہمیشہ اصحاب سے رابطے میں رہتے ۔ 27۔آپ لوگوں کے حالات سے واقف رہنے کی ہمیشہ کوشش کرتے۔ 28۔اچھی عادات کے مالک افراد کو اپنے ساتھ جگہ دیتے اورآپ کے نزدیک اچھی عادات کا حامل وہ شخص ہے جو مسلمانوں کا خیرخواہ ہو ۔ 29۔ آپ کے نزدیک عظیم لوگ وہ تھے جو لوگوں کے ساتھ احسان، مدد اور نصرت سے پیش آتے ۔ 30۔ مصلح علما اور اخلاق حسنہ کیمالک افراد کی تکریم فرماتے تھے ۔ 31۔ہر قوم کے شریف افراد کی تالیف قلب کرتے اور ان پر احسان فرماتے تھے ۔ 32۔آپ کسی مجلس میں اٹھتے بیٹھتے تو ذکر خدا کے ساتھ ۔ 33۔مجلس میں اپنے لئے کوئی مخصوص جگہ قرارنہ دیتے اور دوسروں کو بھی اس سے منع فرماتے ۔ 34۔جب کسی مجلس میں داخل ہوتے تو جہاں کہیں بھی جگہ خالی ہوتی وہیں پر بیٹھ جاتے اگرچہ وہ جگہ آخر میں ہی کیوں نہ ہوتی لوگوں کوبھی اس کی نصیحت فرماتے ۔(جاری ہے)
35۔لوگوں میں اس طرح گھل مل جاتے کہ ہرآدمی سمجھتا کہ وہی آپ کی نگاہ میں سب سے مکرم ترین ہے ۔ 36۔ مجلس میں حاضر ہرفرد آپکے اکرام اور توجہ کا مرکزہوتا ۔ 37۔جس نے بھی آپ سے کوئی حاجت طلب کی تو مقدورہونے کی صورت میں اسکی حاجت روی کرتے ورنہ حسن خلق سے اچھے وعدے کیساتھ راضی کرتے ۔ 38۔آپ کی مجلس حیا، بردباری اور سچائی کا نمونہ ہوتی اس میں کسی کی برائی اور غیبت نہ ہوتی کسی کی غلطی کو وہاں ظاہرکرنا ممنوع تھا سب کو عدالت و تقوی و پرہیزگاری کی نصیحت فرماتے ۔بڑوں کا احترام کرتے اور چھوٹوں پر رحم فرماتے فقیروں اورمحتاجوں کا خیال رکھتے تھے ۔ 39۔تمام لوگ آپ کی نگاہ میں مساوی اور برابرتھے ۔ 40۔سب کو اپنی محفل میں جگہ دیتے اور انہیں کسی سے خوف و ضررکا احساس نہ ہوتا کشادہ دلی اور نرمی سے کلام کرتے ۔ 41۔کسی وقت آپکی صدا بلند نہ ہوتی حتی کہ غیض وغضب کے وقت بھی 42۔کسی سے سخت کلامی نہ فرماتے ۔ 43۔لوگوں کے عیوب نہ گنواتے اور نہ حد سے زیادہ ان کی تعریف کرتے ۔ 44۔کوئی بھی آپ سے ناامید نہ ہوتا تھا ۔ 45۔آپ کسی سے کبھی لڑتے جھگڑتے نہیں تھے ۔ 46۔ زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے ۔ 47۔کسی کی بات کو قطع نہ کرتے مگر یہ کہ وہ بات باطل ہو۔ 48۔فائدہ سے خالی اشیا کے درپے نہ رہتے ۔ 49۔دینی امور کے علاوہ کسی کی مذمت نہ کرتے ۔ 50۔امر و نہی کے علاوہ کسی کی سرزنش نہ کرتے۔ 51۔لوگوں کے عیب اور لغزش تلاش نہ کرتے اورنہ اس کی جستجو کرتے۔ 52۔بے ادبوں کی بے ادبی پر صبر فرماتے تھے ۔ 53۔جب آپ دنیا سے رخصت ہوئے تو کوئی درہم و دینار، غلام ،کنیز،بھیڑ،بکری اور اونٹ چھوڑکرنہیں گئے ماسوائے راہوار و ضروری لوازمات ۔ 54۔جب آپ دارفانی سے چلے گئے تو معلوم ہوا کہ آپ کی ایک زرہ مدینے کے ایک یہودی کے پاس گروی تھی جس کے بدلے میں آپ نے اس سے بیس صاع جواپنے اھل وعیال کیلئے لئے تھے۔ 55۔آنحضرت تین دنوں تک گندم کی روٹی سے سیر نہ ہوئیتھے کہ معبود حقیقی سے جاملے ۔ 56۔آپ خاک پر بیٹھتے ،زمین پر بیٹھ کرطعام تناول فرماتے ،زمین پر سوتے بھیڑاور اونٹ کا پاوں خود باندھتے بھیڑوں کو خود دوہتے اور اپنے گھر کادروازہ خود کھولتے تھے ۔ 57۔آپ کمال تواضع کے مالک تھے ۔ 58۔آپ ہرروزبدن کی رگوں کی تعداد کے مطابق تین سوساٹھ مرتبہ الحمد للہ رب العالمین کثیرا علی کل حال کہتے تھے اور ستر مرتبہ استغفراللہ اور سترمرتبہ اتوب الی اللہ کا ذکر کرتے تھے ۔ 59۔روایت میں ملتا ہیکہ ایک مرتبہ آپ کیسامنے دودھ کا پیالہ لایا گیا جس میں شہد ملا ہواتھا آپ نے فرمایا یہ پینے کی دوچیزیں ہیں جن میں سے ایک پر اکتفاہوسکتا ہے ۔میں دونوں کو نہیں پیوں گا اوردونوں کو تم پر حرام بھی نہیں کرتاہوں میں خدا کے لئے تواضع سے کام لونگا ۔جو بھی تکبرکرتا ہے خدا اسے پست کردیتا ہے ،جو اپنی روزی میں میانہ روی سے کام لے خدا اس کے رزق میں اضافہ فرماتاہے ،جو فضول خرچی اور اسراف کرتا ہیخدا اسے رزق سے محروم کردیتا ہے اور جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے خدا اسے دوست رکھتا ہے ۔ 60۔آپ ہرماہ کی پہلی جمعرات اورآخری جمعرات ،ماہ کے پہلے دس دنوں میں پہلے بدھ کو روزہ رکھتے تھیرجب اور شعبان کا پورا مہینہ روزے رکھتے تھے ۔ 61۔آپ سب لوگوں سے زیادہ حکیم ،دانا بردبار ،شجاع عادل اور مہربان تھے ۔ 62۔آپ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے درہم و دینار گھر میں باقی نہ رکھتے ۔ 63۔سال کے اخراجات کے علاوہ سب کچھ خدا کی راہ میں خرچ کردیتے تھے ۔ 64۔معمولی طعام کوبھی استعمال کے لئے محفوظ کرتے جیسے کھجور، جو وغیرہ ۔ 65۔جب خادم چکی کے گرد گھومتے گھومتے تھک جاتا تو اس کی مددکرتے ۔ 66۔رات کو با وضو سوتے اور وضو کیلئے پانی خود مہیا کرتے ۔ 67۔لوگوں کی موجود گی میں کبھی تکیہ نہ لگاتے ۔ 68۔محتاج کی مددخود کرتے تھے ۔ 69۔کھانے انگلیوں سے کھاتے تھے۔ 70۔آپ کبھی پر خوری نہ کرتے تھے۔کہ برب کی نوبت آئے۔ 71۔ہدیہ قبول فرماتے ،گرچہ دودھ کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہوتا۔ 72۔آپ صدقہ نہیں کھاتے تھے ۔اور نہ اپنے اہل بیت کو صدقہ دیتے۔ 73۔لوگوں کو ٹکٹکی باندھ کرنہیں دیکھتے تھے ۔ 74۔اکثر بھوک سے کمر پرپتھر باندھ لیتے ۔ 75۔جو کچھ بھی حاضرہوتا تناول فرمالیتے ۔ 76۔کسی چیز کورد نہیں کرتے تھے ۔ 77۔آپ اکثرسفید لباس زیب تن فرماتے اور سرپرعمامہ باندھتے تھے ۔ 78۔جمعہ کے دن اچھا لباس پہنتے اور پرانا لباس فقیر کو دیدیتے تھے آپ کی ایک ہی عباتھی جہاں بھی جاتے اسی سے استفادہ فرماتے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں چاندی کی انگوٹھی پہنتے تھے ۔ 79۔خوشبور لگاتے تھے۔بدبو سے کراہت کرتے تھے ۔ 80۔ہروضو کے ساتھ مسواک کرتے تھے ۔ 81۔اپنی سواری پر کبھی خود اور کبھی دوسرے کوپیچھے بٹھاتے تھے ۔ 82۔جو سواری ملتی اس پر سوار ہوجاتے کبھی گھوڑا کبھی خچر اور کبھی اونٹ 83۔آپ فقرا اورمساکین کیساتھ بیٹھتے اور ان کے ساتھ کھانا تناول فرماتے تھے ۔ 84۔ہرایک کے ساتھ ادب سے پیش آتے ۔ 85۔جب کوئی عذر کرتا تو اس کا عذر قبول کرلیتے ۔ 86۔آپ کبھی بھی عورتوں اور خدمت گاروں پر غصہ نہ فرماتے اور نہ انہیں برابھلا کہتے ۔ 87۔جب بھی کوئی آزاد غلام یا کنیز آپ سے مدد کے طالب ہوتے تو آپ اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کے ہمراہ چل پڑتے ۔ 88۔آپ بدی کا نیکی سے جواب دیتے ۔ 89۔جس سے ملتے سلام میں پہل کرتے مردوں سے مصافحہ کرتے اوربچوں وعورتوں کو سلام کرتے ۔ 90۔جس مجلس میں بیٹھتے ذکر خدا کرتے اکثر روبہ قبلہ بیٹھتے ہرمجلس میں کم ازکم پچیس مرتبہ استغفار کرتے ۔ 91۔جو بھی آپ کے پاس آتا آپ اس کا احترام کرتے ۔ 92۔آپ کی رضا اور غضب حق کہنے سے مانع نہ ہوتے ۔ 93۔آپ کو گوشت اور کدو پسند تھا شکار نہیں کرتے تھے لیکن شکار کا گوشت تناول فرماتے پنیر اوراسی طرح گھی بھی آپ کو پسند تھا ۔ 94۔اپنے سامنے سے کھانا تناول فرماتے تھے لیکن خرمہ پہلے اطراف میں بیٹھے لوگوں کو پیش کرتے ۔ 95۔کھانے کے بعد ہاتھ دھوتے۔ 96۔پانی پینے کے وقت بسم اللہ پڑھتے تھوڑا سا پیتے پھر لبوں سے ہٹا لیتے اور الحمد للہ کہتے ،تین وقفوں میں پانی پیتے ۔ 97۔سراور داڑھی کو آب سدر (بیری کے پانی ) سے دھوتے ۔ 98۔تیل کی مالش کرنا پسند کرتے تھے ۔ 99۔اپنے سامنے کسی کو کھڑے رہنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ 100۔دوانگلیوں سے نہیں بلکہ تین انگلیوں سے کھانا کھاتے ۔ 101۔کوئی عطر آپ کے پسینے سے زیادہ خوشبودار نہیں تھا ۔ 102۔روایت میں ملتا ہیکہ آپ ایک سفر میں تھے اوراصحاب سے فرمایا کہ کھانے کے لئے ایک بھیڑذبح کریں ایک شخص نے کہا میں ذبح کروں گا دوسرا بولامیں کھال اتارونگا۔ تیسرے نے کہا کہ میں پکائوں گا آنحضرت نے فرمایا کہ میں لکڑیاں جمع کرونگا اصحاب نے کہا یارسول اللہ ہم ہیں آپ زحمت نہ فرمائیں آپ نے فرمایا مجھے پسند نہیں کہ خود کو تم پرترجیح دوں ،خدا اس بندے سے نفرت کرتا ہے جو اپنے ساتھیوں میں اپنے آپ کو ممتازسمجھے ۔ 103۔حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ کی خدمت کی اور آپ نے اس مدت میں مجھے اف تک نہ کہا ۔ 104۔آپ کے لعاب دھن میں برکت اور شفا تھی ۔ 105۔آپ ہرزبان میں تکلم فرماسکتے تھے ۔ 106۔لکھنے پڑھنے پر قادر تھے لیکن آپ تحریر کے لئے حضرت علی کو حکم دیتے۔ 107۔جس حیوان پر سوارہوتے وہ کبھی بوڑھا نہ ہوتا ۔ 108۔جب آپ کسی پتھر یا درخت کے قریب سے گزرتے تو آپ کو جھک کر سلام کرتا ۔ 109۔مکھی مچھر اور ان جیسے جانور آنحضرت پر نہ بیٹھتے تھے ۔ 110۔پرندیکبھی بھی آپ کے سرمبارک پر سے پروازنہیں کرتے تھے۔ 111۔چلنے کے دوران قدم مبارک کے نشان نرم زمین پر نظرنہ آتے لیکن پتھر پرنشان نظر آتے تھے ۔ 112۔تازہ خیار نمک کے ساتھ تناول فرماتے تازہ میووں میں خربوزہ اور انگورپسند تھے اکثر آپ کی غذا پانی کھجوریادودھ اور کھجور ہوتی تھی ۔ 113۔کھانا سب سے پہلے شروع کرتے آخر تک کھانا کھاتے تاکہ کسی کواکیلانہ کھاناپڑے۔ 114۔آپ کی خدمت میں برتن لایا جاتا اور آپ تبرک کے طورپراس میں ہاتھ ڈالتے اور کراہت نہیں کرتے تھے ۔ 115۔نومولود کو آپ کی خدمت میں لایا جاتا کہ آپ اس کیلئے دعا فرمائیں آپ بچے کو گود میں لے لیتے۔ 116۔آپ قیدیوں پر رحم کرتے تھے حاتم طائی کی بیٹی کے ساتھ آپ کا مہربانی سے پیش آنا اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ 117۔آپ نے کسی عورت کی بے حرمتی نہیں کی ۔ 118۔جب گھر میں داخل ہوتے تو تین مرتبہ اجازت طلب کرتے تھے ۔ 119۔سرکے نامناسب بالوں سے کراہت کرتے تھے ۔ 120۔گفت و شنید اور گفتار و رفتار میں تواضع کی علامت تھے۔ 121۔کسی مسلمان کے مریض ہونے کی اطلاع ملتی تو فورا عیادت کو جاتے ۔ 122۔مدینہ سے اٹھنے والے ہر جنازہ میں خود شرکت فرماتے۔ 123۔ہر نماز جماعت کے ساتھ پڑھاتے۔ 124۔ہرنماز سے قبل مسجد میں تشریف لے آتے۔ 125۔قیام اللیل(نماز شب)کے لئے کئی بار سوتے کئی بار اٹھتے۔ 126۔رات کو جلدی سو جاتے اور جلدی سونے کی تاکید فرماتے ۔ 127۔مسجد میں گھنٹوں بیٹھ کر تعلیم قرآن اور شریعت سکھاتے۔ 128۔بزرگوں کا احترام اور بچوں پر شفقت فرماتے ۔ 129۔ہمیشہ سلام میں پہل فرماتے تھے۔ 130۔ہر فریضہ نماز سنتوں کے ساتھ ادا فرماتے تھے۔ یہ ہیں رسول اللہ الاعظم کی ذات مجموعہ کمالات کے بعض اعلی نمونے جنہیں قلم بند کرنے کی توفیق مجھے ملی ہے ۔یاد رہے رسول اللہ اس ذات کبریائی کی ولایت کبری کے حامل تھے جو مستجمع جمیع صفات کمال و جلال وجمال ہے ،لہذا آپ کی صفات کا ان ہی ایک سوتیس صفات حسنہ میں احصاکرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے۔ لیکن بقول شاعر!
آب دریا را اگرنتوان کشید
ہم بقدرتشنگی باید چشید
کے مصداق میری ناقص عقل نے ان ہی صفات حسنہ کے احصا پر اکتفا کیا ہے ۔یہ میرے وجود کے نقص کا ثبوت ہے ۔بھلا ذریکو آفتاب کے نور کی تاب کہاں ؟ جتنا ہوسکا سو اپنی عقیدت کا اظہار کردیا ۔اب اس دریاے فیض کا کرم ہے کہ مجھے مزید کتنا نوازتا ہے عیب مجھ میں ہے اس کی عطا میں نہیں ۔ یہ ایک سو تیس صفات حضور کریم کی سیرت طیبہ کے ہزاروں پہلووں میں سے تبرکا اور تیمنا منتخب کی گئی ہیں ۔تاکہ ہم اپنی زندگی کے مختلف پہلووں میں غور کرکے آقا کریم کی سیرت طیبہ سے ہدایت حاصل کریں۔یہ آرٹیکل سیرت طیبہ کی بابت مشتے از خلوارے شمار ہوگی۔ اور مثنوی ہفتاد من نہ ہونے کے خدشے کے پیش نظر اختصار کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔اللہ کریم مجھے اور قارئین کو سیرت آقا کریم پر چلنے کی توفیق عطا خیر فرمائے۔سچ ہے آنچہ ہمہ خو باں دارند تو تنہاداری میں اپنے بزرگوں ، عزیزوں اور بہن بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس چارٹ کو پرنٹ کر کے اپنے ریفریجرز پر آویزاں کر دیں تاکہ آئینہ کے طور پر کام آئے۔شکریہ
اللہ تعالی ہم سب کو معمولات پیغمبر اسلام اپنانے کی توفیق خیر عطا فرئے۔
٭٭٭