انے ویکھن فلماں تے تھتھے گان ہیر !!!

0
2
شبیر گُل

پاکستان کی موجودہ صورتحال دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ملک پر جانوروں کی حکومت ہے۔ جنہیں قوم کی پریشانیوں ۔غریبوں کی مجبوریوں ۔ پریشان حال لوگوں کی داد رسی کا ادراک نہیں۔ ملک پر ظالم اور بے حس درندوں کا راج ہے۔ جنہیں عام لوگوں کی مشکلات کا کوئی احساس نہیں۔ انڈسٹری بند ہو ۔ یا پڑھی لکھی کریم ملک چھوڑکر چلی جائے۔کسی کے سر پر جوں نہیں رینگتی ۔بحرے اور اندھے حکمران مملکت خدادا پر مسلط ہیں۔ ۔ عام لوگوں کی سفید پوشی کا بھرم کھل گیا ہے۔ سفاک حکمران مڈل کلاس کو کھاگئے ہیں۔ آٹا ،چاول ،روزمرہ کی اشیا عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔ غربت سے مجبور کوئی ٹرین کے نیچے سر دے کر زندگی کا خاتمہ کر رہا ہے ۔ کوئی پنکھا سے لٹک کر۔ کوئی بھوک سے تنگ نہر میں کود کر ۔کوئی بے کس چھت سے چھلانگ لگا کر ۔ کوئی بلوں سے تنگ اپنے آپ کو آگ لگاکر۔ کوئی مجبور کیڑے مار ادویات پی کر زندگی کا خاتمہ ۔کسی جگہ بل کی ادائیگی پربھائی نے بھائی کو قتل کردیا۔کہیں غربت سے مجبور باپ نے بچوں کے سامنے خودکشی کرلی۔ان ظالم درندوں اور کرپٹ قومی مجرموں کے خلاف احتجاج کرنے ۔ آواز اٹھانے ۔سوشل میڈیا پر آواز بلند کرنے والوں پر دہشت گردی کے پرچے۔ ڈیجیٹل دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں ون تھرڈ ہاپولیشن فرسٹریشن کا شکار ہے۔ لوگ نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔ اس سارے مسائل اور مشکلات کی اصل جڑ کرپٹ حکمران اور فوجی اشرافیہ ہے۔ ملک ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ سری لنکا اور روانڈہ بننے جارہا ہے۔فاطرالعقل جرنیلی مافیا جو دماغ سے حالی ہے ۔ طاقت کے نشہ میں چور جرنیلوں کے تکبر اور نالائقی نے پاکستان کو اندھیروں میں دھکیل دیا ھے۔بھوک سے تنگ عوامی غضب کا لاوا پک رہاہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ کڑوڑ کمانڈرز ہوں ۔یا کور کمانڈرز ۔ ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔چوروں کی پھوپھو زرداری اور شریف ٹولہ ملک کو تباہی تک پہنچانے کے ذمہ دار تو تھے ہی۔ مگر رہی سہی کسر موجودہ اسٹبلشمنٹ نے پوری کردی ہے۔آئینی ترامیم میں ناکامی پر فوجی اسٹبلشمنٹ ، چیف جسٹس اور حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔حکمرانوں ،اسٹبلشمنٹ اور چیف جسٹس کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہیں چاہئے کہ لوگ مستعفی ہوکر عوام پر رحم کریں۔انہیں ملکی معیشت ،مہنگائی ، بیروزگاری اور عوامی مشکلات سے زیادہ ترامیم کی فکر تھی۔ جسے مولانا فضل الرحمن نے مسترد کرکے پوری قوم کو حیران کردیا۔اس دفعہ مولانا بکے نہیں۔ آئینی ترامیم کو دھبڑدھوس کرنے پر مولانا کی متنازعی اور داغدار شخصیت میں سنجیدگی نظر آئی ہے۔اسٹبلشمنٹ کے خلاف عوامی نفرت سے ظاہر ھوتا ہے کہ جنرل عاصم منیر کا آنے والا وقت جنرل باجوہ اور جنرل فیض کیطرح عبرت ناک ھوگا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ فوجی اسٹبلشمنٹ ہر ادارہ میں ریٹائر اور خاضر فوجی بھی لگائے اور کہے کہ ان پر کوئی انگلی نہ اٹھائے۔یہ چاہتے ہیں کہ سارے قیمتی پلاٹوں پر بھی یہ قابض ہوں ۔ سارے وسائل پر بھی انکا قبضہ۔ پارلیمنٹ، سپریم کورٹ ، الیکشن کمیشن اور نیب انکے تابع۔ سبھی کچھ یہ انجوائے کریں ۔ عوام بھوکے مریں ۔اور ان کے کالے کرتوتوں پر کوئی انگلی نہ اٹھائے۔ (میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔ )جرنیلی مافیا نے عوام اور فوج کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کردی ہیں۔پارلیمنٹ ہو ۔ائی کورٹس ہوں یاسپریم کورٹ ۔جس کی لاٹھی اسکی بھینس قائم ہے۔ آئین کی بے توقیری کردی گئی ہے۔پارلیمنٹ کو اکھاڑہ بنادیا گیا ہے۔لاٹھی کی سرکار قائم ہے۔ نہ کوئی خارجہ پالیسی ہے اور نہ معاشی پالیسی ۔ مسلم امہ کی امامت کا خواب ڈوب چکا ہے۔ دنیا سے بالکل کٹ گئے ہیں۔بیرونی قرضوں کے بوجھ سے بین الاقوامی فقیر کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔اندھوں میں کانا راجہ ۔شہباز اور زرداری قوم پر مسلط ہیں۔سسکتی، بلکتی عوام کے دکھوں کا مداوا ہوتا نظر آتا ہے اور نہ ہی پریشان حال لوگوں کو ان سے کوئی امید ۔ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے ۔آرمی چیف کی مدت ملازمت بڑھانے کیلئے اپوزیشن اور حکمران مولانا فضل الرحمن کے ترلے منتیں کرتے رہے۔ آئینی ترامیم کے لئے پی ٹی آئی کے چند ممبران پارلیمنٹ خرید یگئے ۔کئی ممبران اغوا کئے گئے ۔اسٹبلشمنٹ کی بندریا ایم کیو ایم کو وزارت کا وعدہ کیا گیا۔ لیکن آخری وقت مولانا فضل الرحمن نے بازی پلٹ دی ۔ ترامیم دھرے کی دھری رہ گئیں۔ فوجی اسٹبلشمنٹ، چیف جسٹس اور حکمرانوں کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ترامیم کی پسپائی میں پی ٹی آئی کا کوئی کمال نہیں تھا۔ حکومت کی تیاری نامکمل تھی۔مولانا فضل الرحمن ترامیم کی حمایت کے لئے بارگینگ میں بڑا پیکج چاہتے تھے۔اس لئے حکومت اور پی ٹی آئی کا کھل کر ساتھ نہیں دے رہے تھے۔دونوں طرف ہمدردی اور مسکراہٹیں بکھیر رہے تھے ۔انہیں ڈیل اور ڈھیل کی اسٹبلشمنٹ کیطرف سے طرف سے مکمل آزادی تھی۔لیکن ڈیل اور ڈھیل دونوں ناکام ھوئیں۔ پی ٹی آئی کے بکا بکروں پر سپریم کورٹ نے قدغن لگادی ۔ مولانا کے ارمان آنسوں میں بہہ گئے۔ مولانا کے ساتھ شہباز شریف کے ( لارے تے رنڈے رہن کنوارے) اور حکمرانوں کے ساتھ (ہتھ نہ آئے تے تھو کوڑی ) والا معاملہ ھوگیا۔ ججوں کی عمر کی حد بڑھانے کا بل لانے والوں نے مشرف دور میں ججوں کی تعداد اور عمر بڑھانے کی مخالفت کی تھی۔اب انہیں یہ مڑوڑ کیوں اٹھا تھا۔ انہیں اتنی جلدی کیوں تھی۔دراصل اسٹبلشمنٹ یہ ترمیم لانا چاہتی تھی۔ تاکہ پی ٹی آئی کی عددی برتری کا تیاپانچا کیا جاسکے۔بوٹ پالیشئے اور مالشیے رسوا ھوگئے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو غیبی مدد مل جاتی ہے۔ لیکن اندرونی خلفشار نے انہیں کمزور کردیا ہے۔مولانا فضل الرحمن ترامیم کی حمایت کے لئے بارگینگ میں بڑا پیکج چاہتے تھے۔اس لئے حکومت اور پی ٹی آئی کا کھل کر ساتھ نہیں دے رہے تھے۔دونوں طرف ہمدردی اور مسکراہٹیں بکھیر رہے تھے ۔انہیں ڈیل اور ڈھیل کی اسٹبلشمنٹ کیطرف سے طرف سے مکمل آزادی تھی۔نہیں معلوم مولانا کے دل میں ذلت سے بچنے کا خیال کیسے آیا۔ ڈیل اور ڈھیل دونوں ناکام ھوئیں۔ پی ٹی آئی کے بکا بکروں پر سپریم کورٹ نے قدغن لگادی ۔ مولانا کے ارمان آنسوں میں بہہ گئے۔ مولان کے ساتھ شہباز شریف کے ( لارے تے رنڈے رہن کنوارے) اور حکمرانوں کے ساتھ (ہتھ نہ آئے تے تھو کوڑی ) والا معاملہ ھوگیا۔ ججوں کی عمر کی حد بڑھانے کا بل لانے والوں نے مشرف دور میں ججوں کی تعداد اور عمر بڑھانے کی مخالفت کی تھی۔اب انہیں یہ مڑوڑ کیوں اٹھا تھا۔ دراصل اسٹبلشمنٹ یہ ترمیم لانا چاہتی تھی۔ تاکہ پی ٹی آئی کی عددی برتری کا تیاپانچا کیا جاسکے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو غیبی مدد مل جاتی ہے۔ لیکن اندرونی خلفشار نے انہیں کمزور کردیا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ میں جھوٹے ،سفاک منافقین اور بھان متی کا کنبہ بیٹھاہے۔جن کا مہنگائی،عوامی مسائل، قومی ایشوز، موجودہ افراتفری،نوجوان نسل کی حالات سے مایوسی پر کوئی ویثرن، اور ایجنڈا نہیں۔ اپوزیشن ،حکومت ،اسٹبلشمنٹ اور چیف جسٹس My way اور highway کی ڈگر پر چل رہے ہیں۔موجودہ سسٹم سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ھے ۔اینٹی اسٹبلشمنٹ سوچ بڑھ رہی ہے۔سپریم کورٹ کے باہر انصاف کا ترازو کا پلڑا کب تک منافقوں کیسامنے جھکا رہے گا؟۔ کسی نے انکے کے بارے کیا خوب کہا تھا کہ (انے ویکھن فلماں تے تھتھے گان ہیر ) سیاسی اکابرین اسمبلی کے اندر اور اسمبلی سے باہر ،اخلاقی دوالیہ پن کا شکار ہیں۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی کے جلسے جلوس اور اسمبلیوں کے اجلاس کو دیکھیں تو محسوس ھوتا ہے کہ ہم جہالت کے دور سیگزر رہے ہیں ۔کسی تہذیب وتمدن یا اخلاقیات سے انکا کوئی تعلق نہیں۔ ماسوائے جماعت اسلامی کے قائدین مثلا حافظ انسان سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر سیاسی لیڈر ہی غیر مہذب ،بے اصول اور جھوٹے ہوں تو وہ عوامی بہتری اور فلاح کے لئے کیا کرینگے۔؟ سیاسی رہنماں کی شخصیت مثالی ہونی چاہئے جو نرم ، گرم حالات میں ذاتیات سے بالا تر ہو کر عوامی خدمت کرتا ہو۔ اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا ہو ۔ سیاسی رہنما غیر مہذب تو ہیں ہی۔ انکے فالورز انہی کی نقل کرتے ہئں۔ انکے حواری اور کارکنان ،شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا ہیں۔ سیاسی رواداری اور اخلاقی قدروں سے نابلد ہیں۔ اندھے ،بہرے ، گونگے اور ذہنی غلام ہیں ۔اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں۔
قارئین کرام!ہمارا معاشرہ اسی لئے پنپ نہیں سکا ۔ ہم اچھائی اور برائی کی تمیز نہیں کرتے ماسوائے جماعت اسلامی کے قائدین،خصوصا امیر جماعت خافظ نعیم الرحمن مسائل کی بات کرتے ہیں ۔ مہنگائی کا حل پیش کرتے ہیں ۔ مدلل اور شائستہ گفتگو کرتے ہیں ۔ قومی ایجنڈا کی بات کرتے ہیں ۔ آئین پر عمل کی بات کرتے ہیں ۔ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بات کرتے ہیں ۔ انکی گفتگو میں نہ کوئی جھوٹ اور ہی بدتہذیبی نظر آتی ھے ۔ رواداری اور اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑتے۔ ایسا سسٹم نہیں چاہئے جہاں ایک جرنیل کے اشارے پر پورا سسٹم لپیٹ دیا جائے۔ امریکہ سائفر پر جرنیل جھک جائیں ۔ ایک فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کر دیا جائے ۔ ملک انتہائی خطرناک ڈگر پر چل پڑا ھے۔ پارلیمنٹ کی سپرمیسی کا جنازہ ویگو ڈالے والے نکال چکے۔پارلیمنٹ سے پارلیمنٹیرین کا گرفتار کرنا انتہائی شرمناک ہے۔ سپریم کورٹ سے سیاسی رہنماں کی گرفتاریاں۔صحافیوں کو ننگا کرنے کی دھمکیاں۔ کالے شیشوں والی گاڑیاں اچانک نمودار ہوتی ہیں ۔ آدھی رات کو لوگوں کو اٹھاتی ہیں۔ ٹیلفون پر معزز لوگوں کو گالیاں بکتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کی حرکتوں کیوجہ سے ملک میں نفرت، دہشت گردی،اور خوف بڑھ رہا ھے۔ کانٹر ٹیررازم پر کوئی پالیسی مرتب نہیں کی۔ میرے ایک قریبی دوست نے پاکستان سے کال کرکے انتہائی کربناک لہجے میں پاکستان چھوڑنے کا کہا۔ اس کا کہنا تھا۔کہ پاکستان کے حالات تیزی سے تبدیل ھو رہے ہیں۔ اب یہ ملک رہنے کی جگہ نہیں رہی۔سسٹم ناکام ھوچکا ہے۔ اسٹبلشمنٹ نے سیاسی جماعتوں اور ملک کے بنیادی اسٹرکچر کو انتہائی کمزور کیا ہے۔ ادارے مفلوج کئے ہیں۔ آئینی ترامیم سے اسٹبلشمنٹ جوڈیشری اور پارلیمنٹ کو مزید کمزور کرنا چاہتی تھی۔ جس میں انہیں ذلت سمیٹنا پڑی ۔انکی اس حرکت سے سیاسی اسٹرکچر مزید کمزور ھوا۔سیاسی اسٹرکچر کی کمزوری سے پارلیمنٹ، جوڈیشری اور موجودہ سسٹم مکمل فیل ھو گیا۔جس نے ملک کی بنیادیں ہلادی ہیں۔فوجی جرنیل سمجھتے ہیں کہ بندوق کی طاقت اور اپنے مالشیوں کے ذریعے وہ ملک بہتر چلا سکتے ہیں۔ بندوق اور لاٹھی کسی مسئلہ کاحل نہیں ۔ لاٹھی اور گولی کا مقابلہ لاٹھی اور گولی سے ہی ھوتا ہے۔ جسے ھم بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے نوجوانوں میں دیکھ رہے ہیں۔ ملک میں طاقتور مافیاز بیٹھے ہیں ۔ جو پوری اکنامی پر قابض ہیں ۔ بلوچستان کے resources پر قابض ہیں۔کسی بھی مہذب معاشرہ میں انکی مثال نہیں ملتی۔ بلوچستان،خیبر پختونخواہ کے ٹرائیبل ایریاز ، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں ڈویلپمنٹ کی ضرورت ہے۔سکول کالجز اورتعلیم کی ضرورت ہے۔ہنر، سکیل اور نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں Academies کی ضرورت ہے۔معاشرہ کی تعمیر کے لئے نئے تعلیمی اسٹریکچر کی ضرورت ہے۔ نظام صحت کی ازسر نو تعمر کی ضرورت ہے۔ تباہ حال معشیت ، تباہ شدہ انفراسٹریکچر کو نئے سرے سے بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ایماندار،دیانتدار اور بے لوث قیادت کی ضرورت ہے۔ جو نہ ن لیگ اور نہ پیپلز پارٹی کے پاس موجود ہے۔ نا پی ٹی آئی اور نہ ایم کیوایم کے پاس موجود ہے۔ نہ فضل الرحمن اور نہ ہی ٹی پی ایل کے پاس موجود ہے۔ ملک نہ مذہبی انتہا پسندی کا متحمل ھو سکتا ہے اور نہ مذہبی بلیک میلنگ کا۔ ان جماعتوں کے منتخب لوگ پارٹیاں بدل لیتے ہیں۔ آج اس پارٹی میں کل دوسری پارٹی میں ۔ ان سب کا ایجنڈا اقتدار کا حصول، وسائل پر قبضہ اور کرپشن ہے۔ ان جماعتوں کے پاس نہ کوئی منشور ہے اور نہ کوئی احتساب کاکوئی نظام ۔ سیاسی جماعتوں کو میوزیکل چئیر کیطرح چلایا جارہاہے۔ سیاسی کارکن اس بندر تماشہ سے مایوس ہے۔ ملکی حالات سے مایوس ہے۔ اس وقت ملک میں سیاسی ماحول میں اخلاقیات اور رواداری کی ضرورت ہے۔ مذہبی رواداری کی ضرورت ہے۔ یہ بہت بڑا خلا ہے جس نے ملک کی بنیادیں ہلادی ہیں۔ اس خلا کو صرف جماعت اسلامی ہی پر کرسکتی ہے۔ جس کے پاس ایماندار اور بے لوث قیادت موجود ہے۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ایکسپرٹ موجود ہیں ۔جو محب وطن اور نظریاتی لوگ ہیں۔ ان پر اعتماد کریں یہ پاکستانکو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ ملک کی اس منزل پر لا سکتے ہیں ۔ قائداعظم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکتے ہیں ۔ قوم نے سب کو آزما لیا ہے ۔ ایک بار جماعت اسلامی کو آزما کر دیکھیں ۔ انشااللہ قوم اپنے فیصلے پر کبھی مایوس نہیں ھوگی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here