لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!!!

0
19

آٹھ فروری کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات دراصل رائے عامہ جانچنے کی وہ مشق تھی جو پونے دو سال پہلے ہی ہوجانا چاہئے تھی لیکن بوجوہ، وہ آج ہو رہی تھی۔ آٹھ دسمبر سے تیس جنوری تک مجھے کراچی سے مانسہرہ تک گھومنے پھرنے کا موقع ملا اور میرا خیال تھا کہ انتخابات کی یہ مشق آٹھ فروری کو منعقد نہیں ہوسکے گی کیونکہ پاکستان کے فیصلہ کن عناصر، اس مشق کے نتائج برداشت نہیں کر سکیں گے اور رسک نہیں لیں گے۔پھر پتہ نہیں کس مشیر نے انہیں سبق پڑھایا کہ چونکہ ہم تو خان صاحب سے اسکی حکومت، پارٹی، انتخابی نشان، آزادی، ریپوٹیشن بلکہ بیوی تک چھین چکے ہیں، عدالتِ عظمی اس کے بغض کا شکار ہے، بیورو کریسی ہماری جیب میں ہے، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پوری طرح انڈر کنٹرول ہے، جغادری صحافی ایک بڑی تعداد میں خریدے جا چکے ہیں، مئی کے آپریشن سے عوام سہمی ہوئی ہے اور بڑی سیاسی پارٹیاں گمشدگیِ افراد کے واقعات سے اتنی ڈری ہوئی ہیں کہ کوئی پرندہ پر نہیں مار پا رہا تو اس لئے آٹھ فروی کی مشق ہمارے لئے بالکل محفوظ ہے۔پاکستانی سیاست کے انتہائی تجربہ کار ماہرین نے بھی الیکشن سائنس پر انتہائی مثر انداز میں بارہا یہ لیکچر دئیے کہ پاکستانی ووٹر تو ٹرانسپورٹ، بریانی اور قیمے والے نان کے بغیر باہر ہی نہیں نکلتا۔ ساٹھ فیصد جاہل لوگ بیلٹ پر جہیز کے سامان کی طرح پھیلے ہوئے انتخابی نشانات میں خان صاحب کا نشان کیسے ڈھونڈیں گے۔ خان کے کھڑے کئے گئے کھمبوں پر بھی زیادہ تر پر دبیز چادر ڈال دی گئی ہے۔ جلسہ یا جلوس تو ایک طرف، ہم نے تو کے تحت کارنر میٹنگز پر بھی پابندی لگائی ہوئی ہے۔ ان کے بینروں پہ پابندی ہے۔ امیدواران کی نامزدگی کے عدالتی پراسیس کو مشکل ترین بنایا جاچکا ہے۔ ہر نشست پر جعلی آزاد امیدوار کھڑے کر کے ووٹرز کو مزید الجھا دیا گیا ہے۔ پسندیدہ پارٹیوں کے لیڈروں کو میڈیا پر اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے وہ حلف لے چکے ہوں۔
فیصلہ سازوں کی اتنی ساری پیش بندیوں کے بعد بھی میری رائے یہی تھی کہ آٹھ فروری کی مشق بہت بڑا رسک ہے۔ اس رائے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مجھے پاکستانی عوام کی خان صاحب سے بے پناہ محبت اور اس کے مخالفین سے شدید نفرت دیکھنے کا فرسٹ ہینڈ موقع ملا۔ میں نے نک دا کوکا کی گونج گلی کوچوں میں تقریبا ہر موبائیل فون پہ سنی۔ عوام اب حبیب اکرم، عمران ریاض، صدیق جان، عبدالقادر اور اسداللہ خان کے تجزئیوں اور خبروں کو مجیب شامی، حامد میر، سجاد میر، سہیل وڑائچ اور کامران خان سے زیادہ معتبر سمجھتے ہیں۔ بے جا طاقت کے استعمال سے خان کی پارٹی، مجھے ایک ون مین شو والی پارٹی کی بجائے ایک منظم جماعت کی شکل لیتے ہوئے نظر آ رہی ہے۔ اسے مجبورا مشاورت کا عمل نافذ کرنا پڑ رہا ہے۔ جیلوں میں قید شاہ محمود قریشی، پرویز الہی، اعجاز چوہدری اور محمود الرشید جیسے بزرگ رہنما، عوام میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ عالیہ حمزہ،صنم جاوید اور طیبہ راجہ جیسی قیدی خواتین، مزاحمت کا ایسا استعارہ بن چکی ہیں جو عام پبلک کی نظروں میں رول ماڈل کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ بظاہر مفرور رہنما بھی آنکھ کا تارہ بن چکے ہیں۔
ان سارے حالات کے باوجود، طاقت کے نشے میں دھت فیصلہ سازوں نے آٹھ فروری برپا کر ڈالی۔ پولنگ اسٹیشنز کو اصولا آٹھ بجے پولنگ شروع کرنی تھی لیکن ووٹرز سات بجے سے لائین لگا کر کھڑے ہوئے تھے اور الیکشن کمیشن کی اسکرپٹ میں پولنگ کا آغاز دیر سے کرنے کا کہا گیا تھا۔ الیکشن سائنس کے ماہرین ابھی سو رہے تھے اور یہاں فیلڈ میں ٹینشن کا آغاز ہوگیا تھا۔ پولنگ شروع ہو بھی گئی تو سلو موشن کا اصول اختیار کیا گیا۔ ہر طرح کی الجھنیں ایک طرف تھیں اور عام آدمی کا پکا ارادہ دوسری جانب۔ خان کے پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں طرح کے مداح، بضد تھے کہ آج ظلم کا بدلہ ووٹ سے لینا ہے۔ پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے اپنے دوست، احباب اور رشتہ داروں کے ذریعے پتہ چل رہا تھا کہ انہونی ہوگئی ہے۔ ہر خواندہ اور ناخواندہ کو خان کا نشان ازبر ہے۔ پولنگ ایجنٹ ہوں یا نہ ہوں، ہر ووٹر ایک ایجنٹ بن چکا ہے۔ گنتی اور پھر فارم تک کے حصول کی اہمیت سے ہر کوئی آگاہ ہے۔ پولنگ کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ ووٹ دینے سے رہ بھی گئے لیکن پھر بھی کسی نے حوصلہ نہ چھوڑا۔
پولنگ کا وقت ختم ہوا تو حالات اور نتائج کو بھانپتے ہوئے، پتہ نہیں مجھے کیوں یقین تھا کہ سسٹم کا بلڈوزر اب حرکت میں آنے والا ہے۔ نظر آرہا تھا کہ ہجوم ایک قوم کی شکل میں شدید ردِعمل دے چکا ہے۔ تشدد اور ہنگاموں کی سیاست کی بجائے، قوم نے مزاحمت کا ایک نیا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ آٹھ فروری کا نتیجہ نشستوں سے ناپنا غیر ضروری ہو چکا ہے۔ فارم چھیالیس ہو یا سینتالیس، وہ اپنی حیثیت کھو چکے ہیں۔ پانچ چھ کروڑ لوگوں کا اس طرح باہر نکل کر، ایک منظم طریقے سے، ایک قیدی لیڈر کے کھڑے کئے گئے کھمبوں کے ان گنت نشانوں پر ٹھپے لگانا اور پھر ان ٹھپوں کی گنتی کروالینا، لگتا تو معجزہ ہی ہے، لیکن ایک حقیقت بھی ہے۔ الیکشنز کی ماڈرن تاریخ میں ایسا کوئی اور واقعہ ہوا ہو تو اس وقت مجھے اس کی تلاش ہے۔ پاکستان کا یہ آٹھ فروری، صرف پاکستانی سسٹم کیلئے خطرہ نہیں بلکہ پورے ورلڈ آرڈر کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔ فیض نے کیا خوب کہا تھا:
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاں تلے
یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here