محترم قارئین! ارکان اسلام میں سے ایک عظیم رکن نماز بھی ہے نماز پر بندہ مئومن مردو عورت پر ایک دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے۔ عاقل بالیغ ہونا بھی فرضیت نماز کی شرط ہے۔ نماز مئومن کی معراج ہے نماز سے روح کو تازگی ملتی ہے۔ دل کو سکون ملتا ہے۔ اُمت مسلمہ کا خاص تحفہ ہے پانچ وقت کی نماز سعادت ہے۔ نماز عبادت ہے، نماز اللہ کی بارگاہ میں روحانی ریاضت ہے۔ نماز بندگی کا اظہار ہے نماز بندے کا خالق کے حضور عاجزی کا اظہار ہے۔ اور عملی اقرار ہے اور کمال یہی ہے کہ کائنات میں جو کوئی جھکتا ہے وہ صاحب وقار نہیں ہوتا۔ لیکن نماز میں جو خوش بخت کائنات کے حکمران اعلیٰ کی بارگاہ میں جب جھکنے کی آخری حد کو چھوتا ہے تو اپنی جبین نیاز کو سجدے کا تقدس بخش کر سبحان ربی الاعلی پکارتا ہے۔ تو وہیں اسے بشارت نبوی علیٰ صاحبھا الصلواة والسلام ملتی ہے کہ نماز مئومن کی معراج ہے اورتو نے اس معراج کے آخری زینے کو چھو لیا۔ نماز اللہ تعالیٰ کی طرف سے عشاقان مصطفیٰۖ کے لئے سب سے بڑا تحفہ ہے ارمغان بخش ہے۔ کلید جنت ہے۔ اور اسکے مقام کے کیا کہنے کہ حضور نبی کریمۖ نے تو اپنی چشم مازغ سے اللہ کا دیدار کرکے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ معراج کر تاج زیب سر کیا لیکن امت کو یہ خوشخبری سنا دی کہ مجھے جس معراج کی رفعت ملی ہے اس سے میں تمہیں محروم نہیں رکھنا چاہتا۔ تم نماز کے نور میں ڈوب جائو یہ تمہاری معراج ہے۔ تم رکوع وسبود سے دلوں کو سکون دے لو، یہ تمہاری معراج ہے۔ تم اپنی جبین نیاز سے سجدہ ہائے شوق کی تصویر بن جائو۔ یہی تمہاری معراج ہے۔ معراج کا مطلب ہے سیڑھی یعنی بلندی کی طرف چڑھنے کا بڑا آلہ، تصور کیجئے وہ خدا جس نے ”من یطع الرسول فقداطاع اللہ” یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی فرما کر اپنی اطاعت نبی کریمۖ کی اطاعت کو قرار دے دیا۔ یعنی جس نے رسول اللہ ۖ کا کہنا مان لیا جس نے نطق محمدۖ کو اپنا ترجمان قرار دے دیا ہے۔ اسی زبان مصطفیٰۖ سے نماز کو مئومن کی معراج قرار دے دیا۔ سلام ہو عالی مرتبت آقا علیہ الصلوٰة والسلام پر کہ خود تو مکان ولامکاں کی آخری سرحدوں کو چھو کر معراج کے مقام کو چھو آئے۔ لیکن اپنی امت کو نماز میں معراج کی لذت بخش کر خوش بخت اور شادکان کردیا۔ کیا تحدیث نعمت کے طور پر کبنا درست نہ ہوگا کہ تیری معراج کہ تو لوح وقلم تک پہنچا۔ میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا۔ علیہ الصلواة واسلام نماز مئومن کی معراج ہے۔ وہ مئومن جو حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی طرح عرب کی سرزمین پر بدترین ظلم وستم برداشت کرکے اَحَداَحَدپکارتا رہا۔ حضرت خبیب، زید اور یاسر رضی اللہ عنھم کی طرح عرب کی سرزمین کو اپنے خون رنگیں میں ڈبو کر اللہ اللہ پکارتار ہا جو حضرت امام اعظم ابوحنفیہ کی طرح رضی اللہ عنہ ظالموں کے ناحق ظلم برداشت کرتا رہا لیکن جو اپنے تائیں بہتر اور حق پایا اسے چمٹا رہا جو حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کی طرح کوڑے کھا کر بھی نماز کی اہمیت کی گواہی دیتا رہا۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ٹانگ میں تیر بار ہوجاتا ہے تو نماز کی حالت میں ہونے پر اسے نکالنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ تو ایسے ہی ہو جب آپ رضی اللہ عنہ نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو تین لوگوں والا تیر کھیچنا گیا لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے روحانی سکون میں کمی نہ آئی کیونکہ یہ ان کی معراج تھی۔ اسی نماز کی احسن ترین تصویر میدان کربلا میں نظر آتی ہے۔ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کا آخری شہزادہ بھی جام شہادت نوش کرکے داستان کربلا کا حصہ بن جاتا ہے۔ آخر کار دشمن آپ رضی اللہ عنہ کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ درجنوں تیروں اور تلواروں کے زخموں سے چور حضرت امام حسین بن علی رضی اللہ عنھما گھوڑے سے نیچے تشریف لے آتے ہیں۔ تو ان کے لب ہائے جاں نواز سے صدا ابھرتی ہے۔ کہ میں کامیاب ہوگیا اور حسینیت نے یزیدت کو قیامت تک کے لئے شکست فاش دے دی۔ لیکن تیروں تلواروں کے سایہ میں بھی نماز کو یاد رکھا۔ اور سجدہ ادا کیا۔ اور عملی طور پر ثابت کردیا کہ نماز مئومن کی معراج ہے۔ اور کچھ رہتا ہے تو رہ جائے لیکن نماز نہیں رہنی چاہئے۔ حضرت غوث اعظم سرکار، حضرت معین الدین چشتی اجمیری، حضرت داتا علی ہجویری، بابا فرید الدین گنج شکر، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا، نائب اعلیٰ حضرت محدث اعظم پاکستان اور حضرت شمس المشائخ قاضی محمد فصل رسول حیدر رضوی وغیر ھم اولیاء کرام علیھم الرضوان نے نماز کی پابندی کی۔ نماز ترک نہیں کی۔ باجماعت نماز کا اہتمام رکھا یاد ہے کہ نماز محض جسم کی حرکتوں کا نام ہی نہیں بلکہ
یہ شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا، بقول دیگر
وہ ایک سجدہ جیسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)
٭٭٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے