چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے!!!

0
133
حیدر علی
حیدر علی

” میرے سابقہ دستخط شدہ ایگزیکیٹو آرڈر کے مطابق یو ایس امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ نے فخریہ طور پر محمود خلیل جو ایک انتہا پسند حماس کا حامی ہے اُسے کولمبیا یونیورسٹی کے کیمپس سے گرفتار کر لیا ہے، یہ بے شمار گرفتاریاں جو ہونے والی ہیں اُن میں سے ایک ہے ، ہم لوگ جانتے ہیں کہ کولمبیا اورامریکا کی دوسری یونیورسیٹیز میں ایسے اسٹوڈنٹس ہیں جو دہشت گردی کے حامی ، یہود اور امریکی دشمنی میں پیش پیش ہیں ، ٹرمپ کی حکومت اِسے برداشت نہیں کرے گی” یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا محمود خلیل کی گرفتاری پر ردعمل تھا جسے اُنہوں نے سوشل میڈیا پرتحریر کیا تھا، یہ اور بات ہے کہ ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ جہاں لوگوں کو گرفتار کرکے ڈیپورٹ کر رہی ہے وہاں اپنے اشتہار کے ذریعہ اُنہیں یہ بھی آگاہ کر رہی ہے کہ وہ واپس امریکا آسکتے ہیں اور یہاں کی آزادی زندگانی سے لطف اندوز ہونے کا اُنہیں حق حاصل ہے۔ محمود خلیل کی پیدائش شام کے ایک رفیوجی کیمپ کی ہے جسے اپنے فلسطینی ثقافتی ورثہ پر فخر ہے اور جو گذشتہ سال کے موسم بہار اور گرما میں کولمبیا یونیورسٹی نیویارک کے کیمپس کے احتجاجوں کی رہنمائی کرتا تھا، احتجاج کلاس رومز پر قابض ہوجانا، یونیورسٹی کے مرکزی میدان میں خیمہ لگانا اور اسرائیل کی غزہ پر حملہ کرنے کی مدمت کرنے پر مشتمل ہوتی تھی۔امریکا کی دوسری یونیورسٹی میں اُسی طرح کے احتجاجی جلسہ ہوا کرتے تھے جس میں امریکی صدر جو بائیڈن کی غزہ میں فلسطینی عوام کے قتل عام کو رکوانے میں کوئی کردار ادا نہ کرنے کی مدمت کی جاتی تھی۔ محمود خلیل احتجاج کی ایک منھ بولتی تصویر اور فلسطین طلبا و طالبات کے دِل کی دھرکن ہے جس کی وجہ کر وہ دائیں بازو کے ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کا نشانہ بنا رہا ہے اور جو اُس پر غدار اور دہشت ہونے کا الزام لگایا کرتے ہیں اور اُسے ڈیپورٹ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، محمود نے اِس صورتحال پر کولمبیا یونیورسٹی کے حکام کی توجہ دلائی تھی لیکن کوئی خاطر خواہ شنوائی نہیں ہوئی تھی اگرچہ خلیل ایک گرین کارڈ ہولڈر اور امریکی سٹیزن لڑکی کا شوہر ہے لیکن باوجود اِس حقیقت کہ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ فلسطین طلبا کی حمایت کرنے کی وجہ کر امریکی حکام کی انتقام کا نشانہ بنا ہوا ہے،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غم و غصے کی ایک جھلک کا اندازہ اُن کے اِس اقدام سے کیا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے یک جنبش قلم کولمبیا یونیورسٹی میں یہود دشمنی کو روکنے کیلئے اُسے چار سو ملین ڈالر کی جو رقم دی تھی اُسے واپس لے لیا ہے۔ 8 مارچ کی شب ساڑھے آٹھ بجے سادھے لباس میں ملبوس اہلکاروں نے محمود خلیل اور اُس کی اہلیہ جو آٹھ ماہ کی حاملہ اور یو ایس سٹیزن ہے سے یونیورسٹی کی عمارت میں رابطہ قائم کیا،اہلکاروں نے محمود کو بتایا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اُس کے اسٹوڈنٹ ویزا کو معطل کردیا ہے جس کی وجہ کر اُسے تحویل میں لیا جارہا ہے۔ محمود کے وکیل ایمی گریئیر نے مداخلت کرتے ہوے اہلکاروں کو آگاہ کیا کہ محمود ایک گرین کارڈ ہولڈر ہے اور اُس کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاسکتی ، جس پر اہلکاروں نے یہ دلیل دی کہ محمود کے گرین کارڈ کو بھی معطل کیا جارہا ہے جب اہلکاروں سے یہ استفسار کیا گیا کہ کیا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اِس بات کی تصدیق کرسکتا ہے کہ محمود خلیل کے گرین کارڈ کو بھی معطل کردیا گیا ہے تو اُس پر اہلکاروں نے جواب دیا کہ ویزے کے ریکارڈز امریکی قانون کے تحت خفیہ ہوتے ہیں ، اِسلئے وہ اِس بابت کچھ بتانے سے قاصر ہیں،پہلی اطلاع کے مطابق محمود خلیل کو لوویزیانا کے امیگریشن کیمپ میں مقید رکھا گیا تھا، بعد ازاں امیگریشن کے حکام نے یہ انکشاف کیا کہ وہ نیوجرسی میں آئس کی تحویل میں ہے۔محمود خلیل نے اپنی تعلیم انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز میں کولمبیا یونیورسٹی سے دسمبر 2024 ئ میں مکمل کی، خلیل نے برٹش کے سفارت خانہ بیروت میں شام کے آفس میں بھی خدمت انجام دیا کرتا تھا، گزشہ سال جب خلیل کولمبیا یونیورسٹی کا ایک طالب علم تھا تو اُس نے بحیثیت مذاکرات کار کے طور پر
فلسطینی احتجاجیوں اور یونیورسٹی کے حکام سے سمجھوتے بھی کرائے تھے، تنازع یونیورسٹی کے میدان میں کیمپوں کے لگانے پر پیدا ہوا تھا، اپنی گرفتاری کے چند دِن قبل خلیل نے میڈیا کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوے کہا تھا کہ اُس کے خلاف 13 الزامات لگائے گئے ہیں لیکن اُن میں سے بیشتر الزامات
سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے ہیں جن سے اُسکا کوئی تعلق نہیں ہے اِدھر کولمبیا یونیورسٹی کی ایک دوسری طالبہ ریقا کوردا کو بھی ڈی ایچ ایس والوں نے گرفتار کرلیا ہے، اُس پر بھی یونیورسٹی کے کیمپس میں احتجاج کر نے کا الزام ہے، وہ گذشتہ سال بھی اپنے اسٹوڈنٹ ویزا کے معیاد سے زیادہ مدت تک رہنے کے الزام میں گرفتار ہوئی تھی۔
کولمبیا یونیورسٹی کے میدان کارزار بننے کا آغاز سال 2023 ء کے موسم خزاں سے اُس وقت شروع ہوا جب فلسطین کے حمایتی طلبا نے غزہ کی جنگ کے خلاف مظاہرے اور احتجاج کا سلسلہ شروع کیا، بلاشبہ اُن کے مظاہرے کے جواب میں اسرائیلی کے حمایتی طلبا نے بھی مظاہرہ کرنے لگے اگرچہ اُن کی تعداد بہت کم ہوا کرتی تھی تاہم 2024 ء میں اسرائیلی فوج کے سابقہ سپاہیوں نے فلسطینی طلبا پر
زہریلی گیس سے حملہ کر دیا تھاجس کی بازگشت کیپٹل ہِل تک پہنچ گئی تھی چند اسرائیلی طلبا اِس الزام میں گرفتار کر لئے گئے تھے لیکن بعد کی کاروائی میں وہ رہا ہوگئے تھے.حقیقت یہ ہے کہ تاہنوز اُس وقت سے اب تک کولمبیا یونیورسٹی پانی پت کا میدان بنا ہوا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here