ہر گزرتے دن سانحات پر سانحات !!!

0
36
شمیم سیّد
شمیم سیّد

ملک میں ہر طرف دہشت گردی ، سراسیمگی، امن و امان کے مسائل، مہنگائی، بے یقینی، معاشی مسائل، بے ہنگم زندگی، بے چارگی، غیر یقینی کی صورتحال اور لاچارگی عام ہے۔ ایک وقت تھا جب کہیں دہشت گردی ہوتی تو عام آدمی کو یقین ہوتاتھا کہ اس کا سدباب کیا جائے گا اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ لیکن اب عوام مایوسی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ نہ جانے قانون نافذ کرنے والے کسی اور کام میں لگ گئے ہیں، یا کوئی اور وجہ ہے لیکن یہ بات تو طے ہے کہ وہ پارلیمان ہو، پولیس ہو یا بیوروکریسی ہو مکمل طور پر ایکسپوز ہوئے ہیں۔ اور رہی سہی عزت بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ دنیا ہماری عدلیہ کو دیکھتی ہے، پولیس کو دیکھتی ہے، جمہوریت کو دیکھتی ہے، بیوروکریسی کو دیکھتی ہے، کرپشن کو دیکھتی ہے ، دہشت گرد کارروائیاں دیکھتی ہے۔ لہذاسوال یہ ہے کہ یہ جمہوری و انتظامی ادارے تباہی تک کیسے پہنچے،،، اس کی ایک چھوٹی سی مثال سے وضاحت کرتا چلوں کہ دو تین روز قبل جعفر ایکسپریس کو بلوچستان میں دہشت گردوں کی جانب سے اغوا کیا گیاتو دنیا بھر میں پاکستان کے حوالے سے مزید چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں، ہر طرف خوب پروپیگنڈہ ہوا، پاک فوج کے خلاف زہر اگلا گیا، سوشل میڈیا پر آوازیں کسی گئیں۔ سوشل میڈیا پر ملک دشمن قوتوں نے پرانی ویڈیوز اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے تیار ایسی ویڈیوز پھیلا دیں کہ جس سے لگا کہ تمام 4سو افراد یا تو قتل کر دیے گئے ہیں یا انہیں قیدی بنا کر کسی خفیہ مقام پر لے جایا گیا ہے۔ پھر کہا گیا کہ ان قیدیوں میں زیادہ تر پاک فوج کے جوان تھے، جو عام لوگوں کے بھیس میں سفر کر رہے تھے۔ مطلب! نہ جانے کون کون سی خرافات موضوع بحث بنیں۔ پاکستان کو اس وقت بیک وقت خیبر پختون خوا میں تحریک طالبان اور بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی کی دہشتگردی کا سامنا ہے۔ دونوں جنگجو تنظیموں کو ہندوستان اور افغانستان کی طرف سے بھرپور سپورٹ حاصل ہے جبکہ سیاسی بحران کی وجہ سے الگ مسائل ہیں۔یہ بات سرکار اور عوام کے درمیان دہشت گردی سمیت کئی معاملات میں خیلج پیدا کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی 62 فیصد نوجوان نسل موجودہ حکومت کو عوام کی حقیقی نمائندہ ہی تسلیم نہیں کرتی ہے ۔ جعفر ایکسپریس ٹرین میں بچنے والی ایک پنجابی خاتون کی آہ و فغاں ہمارے اہل ارباب کے ساتھ ساتھ نفرتوں کے بیج بونے والے چند گمراہ بلوچوں کے منہ پر طمانچہ ہے، جب پاکستان قائم ہوا تو بلوچستان کی سیاسی حیثیت باقی صوبوں سے مختلف تھی۔ ایک ریاستی بلوچستان تھا اور دوسرا برٹش بلوچستان۔برٹش بلوچستان پاکستان میں شامل ہو گیا جبکہ خان آف قلات نے آزادی کا اعلان کر دیا اور ایک ریاستی اسمبلی قائم کی جس نے قرارداد منظور کی کہ بلوچستان آزادی اور خودمختاری قائم رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرے گا۔ 27 مارچ 1948 کو خان قلات نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ میر احمد یار خان کے چھوٹے بھائی شہزادہ عبدالکریم نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ۔ سردار نوروز اور ان کے ساتھیوں نے مسلح ،زاحمت شروع کر دی اور پہاڑوں پر چلے گئے۔باقی کسر بھٹو نے پوری کر دی۔ 1970 میں بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو دس ماہ بعد ختم کر دیا اور وزیر اعلی عطا اللہ مینگل اور گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو سمیت تمام سرکردہ بلوچ رہنماوں پر بغاوت کے مقدمے قائم کر کے حیدرآباد جیل میں قید کر دیا ۔ بعد میں ضیا الحق نے رہا کیا تو بلوچستان میں مسلح جدوجہد ختم ہو گئی مگر مشرف دور میں بلوچستان میں بی ایل اے نے دوبارہ سرکاری تنصیبات اور سکیورٹی فورسز پر حملے شروع کر دیئے۔ اس وقت بلوچ لبریشن آرمی کی قیادت بلاج مری کے پاس تھی جنہیں افغانستان میں ھلاک کر دیا گیا ۔بعد میں 2006 میں اکبر بگٹی کی موت نے بلوچستان میں حالات کو بہت زیادہ خراب کر دیا۔2022 میں شاری بلوچ نے کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملے میں دو چینی پروفیسرز اور ایک پاکستانی ڈرائیور کو شہید کیا۔ 2023 میں تربت میں سمعیہ نامی لڑکی نے ایف سی کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ ماہل بلوچ نے بیلہ میں ایف سی کے کیمپ پر خود کش حملہ کیا۔ بی ایل اے اب تک متعدد حملوں میں سینکڑوں بے گناہ شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے جوانوں کو شہید کر چکی ہے ۔ نومبر میں کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر حملے سے 32 لوگ شہید ہوئے تھے اور اب پھر جعفر ایکسپریس میں مسافروں کو یرغمال بنا کر درجنوں نان بلوچوں اور سرکاری اہلکاروں کو شہید کیا گیا ہے۔ بی ایل اے کو انڈیا اور افعانستان کی حکومتوں سے فنڈنگ، لاجسٹک، اسلحہ اور ٹریننگ ملنے کے واضح ثبوت ہیں ۔کلبوشن کی گرفتاری اور تائب ہونے والے جنگجووں نے واضح طور پر بتایا ہے کہ پاکستان کے دشمن ممالک بی ایل اے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ بی ایل اے بڑے منظم انداز میں دہشت گردی کرتی ہے۔ اس کے کئی ونگز ہیں۔ مجید برگیڈ خود کش بمبارز کی ذہنی اور جسمانی تربیت کرتی ہے۔ فتح سکواڈ ٹارگٹ لوکیشن کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے، زریاب ونگ انٹیلی جنس کا کام کرتا ہے جبکہ ٹیکٹیکل ونگ ہائی پروفائل شخصیت کو اغوا کرنے کا کام کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم اپنے پیغام کو پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی انتہائی مہارت سے کر رہی ہے۔ اگر چہ پاکستان سمیت امریکہ، چین اور یورپی یونین نے اس تنظیم کو دہشت گرد قرار دے کر بین کیا ہوا ہے مگر اسلم بلوچ کے ھلاک ہونے کے باوجود یہ تنظیم منظم انداز میں دہشت گردی کر رہی ہے۔ اب دہشتگردی کرکے مرنے یا فرار ہونے کی بجائے وہ طالبان کی طرح مختلف مقامات پر قبضہ کرنے یا بسوں اور ٹرینوں کے مسافروں کو یرغمال بنانے کا عملی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بلوچستان کا رقبہ وسیع و عریض ہے اور ساتھ ایران اور افغانستان کی طویل سرحدیں ہیں جسکی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ان کا مکمل قلع قمع مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے دشمنوں سے کسی صورت میں سمجھوتہ کرنا ممکن نہیں مگر وہ عام بلوچ نوجوان جو بی ایل اے سے ہمدردی رکھتے ہیں اور پاکستان سے بیگانگی روا رکھتے ہوئے احساس محرومی کا شکار ہیں ان کے ساتھ ریاست کو ہمدردی کرتے ہوئے ان کے مسائل کو حل کرنا چاہئے۔
٭٭٭ا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here