دانش و بینش کے مکالمات ِ نایاب!!!

0
83
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

سابق سینئر بیوروکریٹ دوست ِ محترم ممتاز شاعر و مدبر، مفکر و دانشور اکرم سہیل صاحب نظم و نثر میں یکتائے روزگار، انسانی حقوق کے علم بردار، شعور و آگہی کے مینار اور جہانِ بصیرت و فراست کے مردِ ذی وقار ہیں۔ آپ کی نثری تصنیف شعورِ عصر سیاسیات، کشمیریات، مذہبیات اور ادبیات کا شہکار ہے۔ آپ انسان دوست، روشن فکر، مساواتِ انسانی کی آواز اور کاروانِ آزادی کے ہمدم و دمساز ہیں۔ آپ بلا خوف و خطر اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ بقولِ علامہ اقبال!
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
مکالماتِ اکرم سہیل آپ کے فرمودات ، بیانات اور نظریات پر مبنی شہکارِ دانش و بینش ہے۔ یہ خزین حقائقِ زندگی ہے۔ اِس میں قومی واقعات، عالمی سیاسات، سیاسی حالات، ملی سانحات، مذہبی مناقشات اور نوکر شاہی کی مراعات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ حکمرانوں کی عیاشیاں عیاں اور سیاست دانوں کی ضمیر فروشیاں بیاں کی گئی ہیں۔ آمریت و فسطائیت اور ملائیت و فرقہ بازی پر ضربِ کاری لگائی گئی ہے۔ وحدتِ انسانیت کا پرچار ہے۔ عدل و انصاف کی پکار ہے۔ فرعونوں ، ہا مانوں اور نمرودوں کے لئے للکار ہے۔ یہ مکالمات ایقان و ایمان، عرفان و وجدان کے موتی ہیں۔ حکیمانہ اور فلسفیانہ انداز میں انسانی تجربات و مشاہدات پر خامہ فرسائی ہے۔ آپ جمہوریت ، انسانی حقوق اور روشن فکری کے عظیم پرچارک ہیں۔ یہ کتاب دنیائے علم و عرفان میں حکمت و حکومت کے اسرار و رموز پر فلسفیانہ انداز میں تبصرہ ہے۔ افلاطون کے مکالمات ( The Dialogue) ، حضرت علی کی نہج البلاغہ، لبنانی فلسفی خلیل جبران کی تصنیف پیغمبر ، شیخ سعدی کی بوستان و گلستان، انگریز فلسفی ( Francis Bacon) کی تصنیف The Advancement of Learning بے مثال علمی و ادبی تصانیف ہیں جن سے دنیا آج تک فیض یاب ہو رہی ہے۔
عہدِ حاضر میں اکرم سہیل کا یہ علمی و ادبی کارنامہ اسلافِ پارینہ کی رسمِ عقلی و عرفانی کو زندہ کرنے کے مترادف ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہ کتاب ادبیاتِ عالم میں ہمیشہ زندہ و تانبدہ رہے گی۔ بقولِ حافظ شیرازی
ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جرید عالم دوامِ ما
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here