برادر مسلم ممالک کیساتھ تعلقات بڑھانے کی مساعی!!!

0
38

نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے جدہ میں او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کے دوران کچھ دوست ممالک کے ساتھ پاکستان کے سیاسی و اقتصادی تعلقات بہتر بنانے کے لئے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔اسحاق ڈار نے آذر بائیجان کے صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کے تناظر میں وزیر خارجہ جیہون بیراموف سے اب تک کی پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا۔انڈونیشیا کے وزیر خارجہ سوگیانو کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بات کی۔یا درہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف ان ممالک کی قیادت کے ساتھ پچھلے چند ماہ میں ملاقاتیں کر چکے ہیں۔وزیر اعظم کی ملاقاتوں کے بعد وزرا کی سطح پر رابطے اور ان منصوبوں پر عمل درآمد کا عمل آگے بڑھانا ضروری ہے جس پر برادر ممالک کی قیادت اتفاق کر چکی ہے۔آذر بائیجان اور پاکستانکے عوام ایک دوسرے کے قریب آتے جا رہے ہیں۔ اس سے دیگر شعبوں بالخصوص تجارت میں تعلقات کو مزید گہرا کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ 2020 میں پاکستان نے آذربائیجان کے ساتھ ٹیکسٹائل 4.68 ملین ڈالر، کیمیائی مصنوعات 2.32 ملین ڈالر اور سبزیوں کی 1.51 ملین ڈالر کی تجارت کی ۔یہ حجم 2025 میں بھی پانچ سال پہلے جیسا ہے ۔دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم بہت کم ہے ۔ حکومت آذربائیجان کی طرف سے ویزا کے طریقہ کار کو آسان بنایا گیا ہے، جس کے ذریعے ثقافتی تعلقات کو سیاحت کے ذریعے آگے بڑھایا جا سکتا ہے، پاکستان سے آذربائیجان جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔تیس برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان اعلی سطح کے تعلقات کو تیزی سے فروغ مل رہا ہے۔ دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مختلف شعبوں کے درمیان مفاہمتی یاداشتوں کی ایک طویل فہرست پر دستخط کیے گئے ہیں- 2005 میں پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان اطلاعات و مواصلات، ٹرانسپورٹ، ایوی ایشن ، ثقافت، مالیات اور تعلیم سے متعلق چھ معاہدے ہوئے- دونوں ممالک کے درمیان ایک کمیشن بھی ہے جو ہر دو سال بعد اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ ہم اپنے اقتصادی تعلقات کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں- باکو میں نیشنل بینک آف پاکستان کی شاخیں ہیں اور پاکستانی فارما انڈسٹری نے بھی آذربائیجان میں سرمایہ کاری کی ہے اور بھی کئی ایسے شعبہ جات ہیں جن میں ہم بنیادی طور پر دفاعی نظام پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں، دفاعی ساز و سامان اور توانائی کے شعبے کی ترقی پر توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے۔آذر بائیجان کے صدر کے حالیہ دورہ پاکستان میں دو طرفہ تجارت کا حجم دو ارب ڈالر سالانہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔اس ہدف تک پہنچنے کے انتظامات جلد ہونے چاہئیں۔ گزشتہ برس دسمبر میں وزیراعظم شہباز شریف نے قاہرہ میں ڈی ایٹ سمٹ کے موقع پر انڈونیشیا کے صدر پرابوو سوبیانتو سے ملاقات کی۔دونوں رہنماوں نے سیاسی، تجارتی اور اقتصادی امورمیں کثیر الجہتی سطح پر تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا تھا ۔ انڈونیشیا پاکستان کا قابل بھروسہ تجارتی شراکت دار ہے،خوردنی تیل کی ضروریات کا زیادہ تر حصہ اسی سے درآمد ہوتا ہے۔ پاکستان آسیان میں سیکٹرل پارٹنر کا درجہ حاصل کرنے اور آسیان ریجنل فورم کی رکنیت کے حصول میں انڈونیشیا کی حمایت کو سراہتا ہے۔دونوں مسلم دنیا کے بڑے ممالک ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ تجارت میں پسماندہ ہیں۔ پاکستان اور انڈونیشیا دو برادرممالک ہیں جن کے تعلقات نہایت مضبوط، گہرے اور تاریخی ہیں۔ دونوں ممالک اسلامی بھائی چارے کے گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک دنیا میں امن، یکجہتی عالمی بھائی چارے، برداشت اور باہمی تعاون کے لیے کوشاں ہیں۔ دونوں ممالک اقوام متحدہ، اسلامی تنظیم برائے تعاون کے فعال رکن ہیں اور ان پلیٹ فارمز سے امت مسلمہ کے لیے نہایت اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات آزادی سے قبل مضبوط بنیادوں پر استوار ہوگئے تھے جب برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم قائد محمد علی جناح نے انڈونیشیا کی آزادی کی بھرپور حمایت کی اور برصغیر کے مسلمانوں نے انڈونیشیا کی آزادی میں عملی حصہ لیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ اس عظیم مقصد کے لیے پیش کیا۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے انڈونیشیا کا سب سے بڑا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستانی شہدا وہیں مدفون ہیں جبکہ غازیوں میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے انڈونیشیا میں ہی پناہ لی اور وہیں مقیم ہوگئے۔انڈونیشیا کی آبادی 27 کروڑ 90 لاکھ سے زائد ہے۔ اس کے چونتیس صوبے ہیں۔ انڈونیشیا تیل، قدرتی گیس، تانبا اور سونے جیسے قدرتی اور قیمتی معدنیات سے مالا مال ملک ہے۔ انڈونیشیا آسیان ممالک کا بانی رکن ہے۔اس نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ کیا ہے۔انڈونیشیا جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے بڑا ملک اور دنیا کے امیر ترین ممالک G20 کا بھی رکن ہے۔ یہ دنیا کی 16ویں بڑی معاشی قوت ہے۔پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان سرکاری وفود اورعہدیداروں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پاکستان اور انڈانیشیا کا تجارتی حجم 21-2020 میں بڑھ کر 4 ارب 20 کروڑ ڈالر ہوگیا۔ پاکستان انڈونیشیا کو ٹیکسٹائل، سبزیاں، پھل بالخصوص موسمیاں برآمد کرتا ہے جبکہ انڈونیشیا سے بڑی مقدار میں پام آئل درآمد کرتا ہے۔ پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان ترجیحی تجارت معاہدہ پر 3 فروری 2012 دستخط ہوئے جبکہ ستمبر 2013 میں اس معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز ہوا۔ ترجیحی تجارتی معاہدے میں صفر شرح پر کینو، موسمیاں، دیگر اشیا میں تازہ پھل، گارمنٹس، کاٹن فیبرک، پنکھے، چمڑے کا سامان شامل ہیں۔بہتر ہوگا کہ وزیر اعظم اور نائب وزیر خارجہ کی ملاقاتوں کے بعد برادر ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے طریقہ کار کئے جائیں اور ماہرین پر مشتمل کمیٹیاں اس سلسلے مین پیشرفت کی ذمہ داری نبھائیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here