او آئی سی اور بھارتی پینترا!!!

0
144
مجیب ایس لودھی

اُمت مسلمہ ایک مرتبہ پھر جاگتی نظر آ رہی ہے اور اس کو جگانے کی جسارت سعودی عرب کے حصے میں آئی جس نے او آئی سی کا اجلاس پاکستان میں منعقد کرایا جس کے دوران تمام مسلم ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی ، کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے پر امن حل پر زور دیا گیا، اگست 2019ء کے دن سے مودی سرکار نے وہاں بسے لاکھوں مسلمانوں کو دنیا سے کاٹ کر ایک وسیع تر جیل تک محدود کررکھا ہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہوئے پاکستان نے کشمیر کو ہمیشہ اپنی شہ رگ پکارا۔ مودی سرکار کے جوتوں تلے سلگتی اس شہ رگ کی حفاظت کے لئے ہماری حکومت مگر اسلامی ممالک کی تنظیم جسے او آئی سی پکارا جاتا ہے کا اجلاس تک بھی نہ بلوا پائی۔افغانستان کو مذکورہ بالا تناظر میں کسی حد تک خوش نصیب تصور کرتا ہوں۔ وہ او آئی سی جو روہنگیا،کشمیر اور شام کے مسلمانوں کے لئے ایک لمحے کے لئے بھی فکر مند نہ ہوپائی افغانستان کے حالات سے گھبرا گئی ہے۔ آج سے چھ ماہ قبل ہی اگرچہ طالبان نے 20 برس کی طویل مزاحمت کے بعد دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے امریکہ کو وہاں سے ذلت آمیز انداز میں بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔ غلامی کی زنجیریں توڑ دینے کے بعد طالبان کو مگر دریافت ہوا کہ ان کے پاس حکومت چلانے کے لئے سرمایہ ہی موجود نہیں۔ سرکاری ملازموں کو تنخواہیں ادا نہیں ہوپارہیں۔ ہسپتالوں میں ہنگامی ضروریات کی ادویات بھی میسر نہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کا بندوبست برقرار کھنا بھی ناممکن ہورہا ہے۔ ویسے بھی ان اداروں میں مخلوط تعلیم کی بدولت فحاشی پھیل رہی تھی۔ مغرب کے متعارف کردہ دین دشمن خیالات فروغ پارہے تھے۔عورتوں کو گھروں میں بٹھا دینے کے باوجود مگر انہیں کھانا بھی تو کھلانا ہوتا ہے۔ افغانستان میں تاہم گزشتہ دو برس سے قحط سالی کا آغاز ہوچکا تھا۔ کھانے پینے کی بے تحاشہ بنیادی اشیاء غیر ملکوں سے منگوانا لازمی ہوگیا اور انہیں خریدنے کے لئے طالبان حکومت کے پاس کوئی رقم ہی موجود نہیں ہے۔
اسلام کے نام پر قائم ہوئے پاکستان کی ریاست اور حکومت نے نہایت لگن سے او آئی سی کو قائل کرلیا ہے کہ اس کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اسلام آباد میں تین دن تک سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایسی راہیں تلاش کریں جو افغان عوام کی بے پناہ اکثریت کو فاقہ کشی سے محفوظ کر پائیں۔ اس ملک میں کاروبار حیات بحال ہو۔ تعلیمی ادارے اور ہسپتال باقاعدگی سے چلیں۔ حالات کو قابو میں رکھنے والا سرکاری بندوبست عملی زندگی میں نظر آئے۔ یہ تمام اہداف حاصل کرنے کے لئے اگرچہ سرمایہ درکار ہوگا۔ کئی مسلمان ممالک مطلوبہ سرمایہ بآسانی فراہم کرسکتے ہیں۔ مصر میں نام نہاد عرب بہار کے بعد جب اخوان المسلمین کی منتخب حکومت قائم ہوئی تو اسے چلانے کے لئے قطر خاطر خواہ رقوم فراہم کرتا رہا۔ صدر مورسی کی مبینہ مذہبی شدت پسندی مگر دنیا کے نام نہاد مہذب ممالک کو پسند نہیں تھی۔ مصر کی فوج نے اس کا تختہ الٹ دیا۔ اوبامہ نے اگرچہ اس عمل کو فوجی بغاوت کہنے سے انکار کردیا۔ نئے بندوبست کی معیشت کو آئی ایم ایف کے رضا باقر نے مبینہ طورپر مستحکم بنایا۔ اس کے باوجود مصر کو باقاعدگی سے سعودی خیرات بھی ملا کرتی ہے۔ مصر کی معیشت کو مستحکم کرنے کے بعد رضا باقر صاحب اب ہمارا مقدر سنوارنے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر لگادئیے گئے ہیں۔ مجھے شبہ ہے کہ افغان معیشت کو بحال کرنے کی کوئی صورت نکالنے کے لئے بھی ان کی فراست سے رجوع کرنا ہوگا۔افغانستان کو کامل انتشار اور قحط سالی سے بچانے کے لئے مگر لازمی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی بھی اس ضمن میں کوئی کردار ادا کریں۔ ربّ کریم سے درد بھری فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ اسلام آباد میں اسلامی وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو افغانستان کے بارے میں انسان دوست اور ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے کو مائل کرنے کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار کر پائے۔لیکن دوسری طرف بھارت نے بھی پاکستان میں او آئی سی کے اجلاس کے جواب میں افغانستان کی بگڑتی صورتحال پر نئی دہلی میں وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اجلاس منعقد کیا جس میں کرغزستان ، تاجکستان ، قزاقستان ، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی ، اجلاس کے دوران افغانستان میں سیکیورٹی صورتحال اور افغان عوام کو درپیش مسائل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا جبکہ اس حوالے سے تمام شرکا سے رائے بھی طلب کی گئی کہ اس مسئلے کو کس طرح سلجھایا جا سکتا ہے یعنی بھارت نے عالمی منظر نامے میں خود کو افغانستان سے جوڑتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان اس صورتحال کو بہتر بنانے میں اکیلا کردار ادا نہیں کررہا بلکہ بھارت بھی اس سلسلے میں پوری طرح متحرک ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here