والدین اور بزرگ خدا کی طرف سے دیا گیا انمول تحفہ ہیں۔ ایک ایسا تحفہ دنیا کے ہر انسان کو عطا کیا گیا ہے ان انسانوں کی زندگی اچھی ہو یا بری ہو ان کو دنیا میں کچھ ملا ہو کے نہیں ملا ہو۔ چاہے انہیں دولت، صحت، اولاد کسی ایک چیز کی طرف سے محرومی ہو مگر دنیا کا کوئی انسان اس ایک نعمت سے محروم نہیں ہے۔ جسے والدین کہا گیا ہے اولاد کو والدین سے خوشی بھی مل سکتی ہے اور کبھی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔ مگر اس نعمت سے محروم کوئی بھی نہیں ہے۔ ماں کو دنیا کی سب سے پیاری ہستی کہا گیا ہے جو بہت تاز ونعم سے اپنے بچے کو پالتی ہے،ان کو بڑا کرتی ہے، ان کی زندگی کو خوشیوں سے بھرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اچھے برے حالات میں انہیں اپنا قیمتی وقت دیتی ہے۔ ان کے لیے بھاگ دوڑ کرتی ہے۔ انہیں بڑا کرنے میں اپنی ہزاروں خواہشیں قربان کرتی ہے۔ بچوں کو بڑا ہو کر پتہ بھی نہیں چلتا کے ہماری ماں ہمیں پالنے میں کس مراحل سے گزری ہوگی۔ کسی بچے کے لیے رات کو جاگی ہوگی کس بچے کے لئے اس کی صحت کے لئے ہسپتال کے کتنے چکر لگائے ہوں گے۔ کس بچے کی تعلیم کے لئے اس کو معاشرے میں اچھا مقام دینے کے لئے کس کس سکول میں گئی ہوگی۔ یہ سب بچے کے بچپن کی باتیں ہوتی ہیں جن سے والدین گزرتے ہیں کچھ باتیں وہ اپنے بچے کو بتلا پاتے ہیں۔ کچھ نہیں وہ اپنی جوانی اپنا وقت اپنے بچوں کے لئے انہیں بڑا کرنے کے لئے نکال دیتے ہیں۔ اپنی تمام سرگرمیاں ختم کرکے انہیں اپنی زندگی کا اہم مقصد سمجھ کر ان کو ہی اپنی خواہشاتت کا مرکز سمجھتے ہیں بچے بھی والدین سے بہت خوشی اور راحت محسوس کرتے ہیں۔ جوان ہو کر بھی والدین کے علاوہ انہیں کوئی اتنا اہم نہیں لگتا۔ ماں ہو یا باپ وہ ان کے اردگرد ہی چکر لگاتے ہیں ماں کے ہاتھ کا کھانا بہت اچھا لگتا ہے۔ باپ کی باتیں ان کی کمپنی بہت اچھی لگتی ہے۔ ان کے ساتھ گزارا ہوا ہر لمحہ سنہری لگتا ہے۔ لیکن جب یہی والدین یا ان میں سے کوئی ایک بوڑھا ہوجاتا ہے یا بیمار ہو جاتا ہے بچوں کے رحم وکرم پر ہوجاتا ہے۔ تو اب وہی بچے گھبرا جاتے ہیں۔ ان کو اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے والدین پر توجہ دینا مشکل لگتا ہے۔ کسی کو جاب کی مصروفیت ہوتی ہے کسی کے بچے چھوٹے ہوتے ہیں۔ کسی کو کوئی اور مسئلہ آ گھیرنا ہے۔ آپس میں گرما گرما بحث کا آغاز ہوتا ہے۔ ہر بچہ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کے ہم نے تو اپنے ماں باپ کی بہت خدمت کرلی اب دوسرے کی باری ہے۔ ہر بچہ اپنی مجبوریاں بیان کر رہا ہوتا ہے۔ اپنے دوسرے بہن بھائی پر الزام لگا رہا ہوتا ہے۔ کسی دوسرے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے کے وہ آئے اور اپنے اماں ابا کا بوجھ اٹھائے خدا کی طرف سے دیئے گئے اس انمول تحفے کی خوب ناقدری ہوتی ہے۔ ان کی وجہ سے بہن بھائی اپنے تعلقات خراب کر لیتے ہیں۔ شیطان ہنستا ہے اور مسکراتا ہے کے اس بہانے اچھے اچھے نیک لوگ بھی اس کی باتوں میں آگئے اور اتنے اچھے تحفے کو ایک عام تحفہ سمجھ کر قدر نہ کرسکے۔
٭٭٭٭