امریکہ میں شدت پسند اور کرپٹ اسٹیبلشمنٹ کا خاتمہ ہوا، اب امریکہ کے خوشگوار مستقبل اور ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے، امریکہ کے 47 ویں صدر اور دوبارہ منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے ان خیالات کا اظہار اپنی تقریب حلف برداری کے خطاب میں کیا، بادی النظر میں ٹرمپ کے یہ الفاظ صدر بائیڈن یا ڈیمو کریٹک حکومت کے گزشتہ چار سالہ دور اقتدار پر تنقید کے زمرے میں شمار کئے جا سکتے ہیں اور عمومی دلیل یہ دی جا سکتی ہے کہ مخالفین کیخلاف اقتدار میں آنے والوں کا تخاطب اور رویہ یہی ہوتا ہے خواہ امریکہ میں ہو یا پاکستان میں۔ البتہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یکساں سیاسی رویوں کے اظہار کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے جمہوری و اخلاقی کردار میں بہت واضح فرق ہے اور اس کا مظاہرہ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری پر دنیا بھر نے دیکھا جہاں دستبردار ہونے والے صدر و نائب صدر اور نو منتخب صدر و نائب صدر یکجا نظر آئے، یہی نہیں منتخب ہونے والوں نے دستبردار ہونیوالوں کو عزت و احترام سے رخصت کیا، یہی جمہوری عمل کی خوبصورتی ہے۔ اب اپنے وطن میں انتقال اقتدار پر نظر ڈالیں تو ہمیں تو یاد نہیں پڑتا کہ کوئی سربراہ حکومت مروجہ جمہوری اقدار و روایات کے مطابق رخصت ہوا ہو اور آنے والوں نے عزت و خوش خلقی کا مظاہرہ کیا ہو۔ وطن عزیز کی 77 سالہ تاریخی سچائی یہی ہے، سربراہان حکومت کو کبھی طاقتوروں نے منتخب کیا ہے اور نظام چلتا رہا ہے تو کبھی یہی کام انصاف کے رکھوالوں نے کیا مگر وہ بھی مقتدرین کے اشارہ ابرو پر ،وطن عزیز کی سیاسی تاریخ یوں ایک ریکارڈ ہے کہ اسلامی جمہوریہ میں کسی بھی وزیراعظم نے پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہیں کی، وجہ یہ کہ جمہوریت آج تک پنپ ہی نہیں پائی ہے اور عوام کے مینڈیٹ پر طاقتوروں کی مرضی ہی مسلط رہی ہے پاکستان اور امریکہ کے جمہوری فرق کے حوالے سے ہمیں چچا غالب کا شعر شدت سے یاد آرہا ہے،” ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ، ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے”۔ امریکہ میں جمہوری رائے کے سبب جمہوریت کا تسلسل ہے اور پاکستان میں جمہور کی مرضی کو خاک میں ملا دیا جانا ،جمہوریت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ عالمی آقا ہے تو پاکستان کے حصے میں عالمی طاقتوں کی محکومی اور کاسہ لیسی مقدر ہے۔
دوسری بار منتخب ہوتے ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے دن ہی اپنے دور کو امریکہ کے گولڈن ایج کا آغاز قرار دیتے ہوئے سو سے زائد ایگزیکٹو آرڈر کا اجراء کر کے ملکی و بین الاقوامی اہداف واضح کر دیئے ہیں، جنوبی سرحد پر ایمرجنسی ڈیکلیر کر کے فوج کی تعیناتی، امیگریشن، غیر قانونی و جرائم پیشہ ا فراد کو بے دخل کرنے، معاشی بہتری، صحت و تعلیم سمیت میکسیکو پالیسی، عالمی ٹریڈ اور چین کی تجارتی سبقت کو لگام دینے، عالمی محاذ آرائی سے گریز وغیرہ کے حوالے سے قارئین یقیناً آگاہ ہو چکے ہیں لہٰذا مزید تفصیل سے گریز کر کے ہم صرف یہی عرض کر سکتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے اس ایجنڈے میں کسی پینٹاگون یا اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل محض عمل پذیری تک ہی ہونا ہے البتہ اس جانب ضرور توجہ دلانا چاہیں گے کہ کابینہ و مشیران میں دیگر کے علاوہ بھارتی نژاد نمائندگی خاصی تعداد میں ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کوئی نمائندگی پاکستانیوں کو کیوں نہیں، وجہ صرف اتنی ہے کہ عالمی افق پر پاکستان یا پاکستانیوں کیلئے کوئی خوش کُن تاثر ناپید ہی ہے۔ اس کی دیگر وجوہات کیساتھ سب سے بڑی وجہ پاکستان کا غیر جمہوری نظام مملکت و سطلنت ہے، دوسری جانب بھارت کو خطہ میں جمہوری مملکت کا درجہ حاصل ہونے کیساتھ معاشی برتری اور چین کیخلاف امریکی حمایت بھی حاصل ہے۔
وطن عزیز کی بدنصیبی ہے کہ سیاسی بے بساعتی بحرانوں سے ہی نہیں نکل پا رہا ہے، ساتھ ہی معاشی ناہمواری و عدم استحکام کے باعث امریکہ و دیگر مستحکم ممالک و اداروں کی محتاجی پر مجبور ہے، اسی لئے نہ اس کے ریاستی و مملکتی ارباب کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے اور نہ ہی بیرون ممالک پاکستانیوں کی کوئی حیثیت شمار کی جاتی ہے۔ حلف برداری کی حالیہ تقریب کی مثال ہی لے لیں۔بھارتی ٹائیکون امبانی اور اس کی اہلیہ ٹرمپ کے شانہ بہ شانہ ساتھ تھے ، انہوں نے خطیر رقم کا عطیہ بھی دیا، دوسری جانب ہمارے پاکستانی شرف ملاقات سے محروم ہوٹلوں تک ہی محدود رہے۔ غیر جمہوری رویوں، معاشرتی انحطاط اور سیاسی عدم استحکام سے متاثرہ وطن عزیز اب بھی سیاسی ادارہ جاتی اور مقننہ و عدلیہ کے جھگڑوں میں ملوث ہونے کے سبب دنیا کیلئے اپنی وقعت و اہمیت سے محروم ہی نظر آتا ہے اور مستقبل میں بھی کسی بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے، اسی لیے ہم نے سطور بالا میں مرزا غالب کا شعر تحریر کیا ہے!
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
٭٭٭