”96”اکاڈمی ایوارڈز۔ سب کچھ پھیکا بے مزہ شو

0
48
کامل احمر

ہم فلمیں دیکھتے ہیں اور ان پر نظر رکھتے ہیں اور تاریخ لکھتے رہے ہیں۔ یاد دلاتے رہے ہیں کہ فلمیں فنون لطیفہ کا سب سے بھاری ستون ہے۔ اور موسیقی نے اس میں چار چاند لگائے ہیں ہم بات انڈیا کی فلموں کی نہیں کر رہے۔ یہاں ذکر ہالی وڈ(امریکہ) برطانیہ، اٹلی، روس، جاپان، میکسیکو اور فرانس کی ان فلموں کا ہے جو وقت کے ساتھ بدلتے ماحول کو اسکرین پر لاتی رہی ہیں۔ فلمیں جنہوں نے شہرہ آفاق ناولوں کو ڈھائی سے ساڑھے تین گھنٹے میں بند کرکے آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔ پہلے فلم بنانے والے سچائی، مہارت اور پیشہ ورانہ طریقے سے، تاریخ، شادی، ٹریجڈی، کامیڈی اور جزبات کی بھرپور عکاسی سے لبریز فلمیں بنا کر لاتے تھے1970تک انڈیا نے بھی ہالی وڈ کے مقابل کی فلمیں بنائیں۔
96سال پہلے آسکر ایوارڈ کا آغاز کیاگیا۔ جو بعد میں اکاڈمی ایوارڈ ہوگیا اور پھر مجسمہ کی شکل میں دیا جانے لگاCOVID-19کے وقت میں فلم انڈسٹری کو نقصان بھی ہوا اور فائدہ بھی کہ انہوں نے فلمیں دکھانے کے دوسرے ذرائع جو انٹرنیٹ کے ذریعے تھے متعارف کرا دیئے۔ گھر بیٹھے، چلتے پھرتے، سوتے، بیٹھتے ہر کوئی جس کے پاسI-PHONE پر فلم دیکھ سکتا تھا۔ پھر اسکرین پر عجیب عجیب نام کے چینل آگئے اور یوٹیوب نے ہر طرح کی تفریح، فلم، شوز، وی لاگ عام کردیئے اس سے بنانے والوں کو مالی فائدہ پہنچا اور یوٹیوب ہر گھر کی زینت بنا، کوئی پروگرام ایسا نہ رہا جس میں اشتہار نہ ہوں۔ اس دفعہ ہم نے ایوارڈز کی تقریب گھر میںU-TUBEپر دیکھی جوABCسے خریدی گئی تھی اور اسکے لئے فیس دینی پڑی۔ چونکہ انٹرنیٹ آنے کے بعد بہت سے لوگوں نے ریگولر چینل کٹوائے ہیں کہ انہوں نے لوٹ مار شروع کردیا تھا۔FIOSاورOPTIMUMاس سلسلے میں موناپولی کرے ہوئے ہیں۔ اس دفعہ ہمیں امید تھی کہ شو پہلے سے کہیں بہتر ہوگا لیکن دیکھ کر امیدوں پر پانی پھر گیاہر چند کہ شو کے میزبان جمی کمال نے اپنی باتوں مذاق اور مونولاگ سے مصروف رکھا۔ اور یہ انکے لہجے کی خوبی تھی اور اس کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ کہ وہ جو مذاق کر رہے ہیں اور جس ہٹ کر رہے ہیں آپ اس سے واقف ہوں۔ شو3گھنٹے25منٹ کا تھا اور اس میں اشتہاروں کی بوچھاڑ تھی تقریباً150اشتہار تھے چھوٹے بڑے کہہ سکتے ہیں یہ رواں دواں بور شو تھا۔ درمیان میں ایک کوشش کی گئی تھی ایک ننگے آدمی کو لانے کی لیکن پھر اسے چادر سے لپیٹ دیا گیا۔ ایوارڈ دینے کے لئے نئے اور پرانے جیسے فلمGODFATHER-2کے ہیروال چینوAL-PACINOبہترین فلم کا ایوارڈ دینے آئے۔ عجیب سی بات تھی اس کے لئےJAWSاورJURA SSIC PARKکے مشہور ڈائریکٹر کو لانا تھا جو پروڈیوسر بھی ہیں۔ عجیب بات یہ رہی کہ ممعہ ہے کہ وہ پہلے ایوارڈ کی شروعات معاون اداکارہ سے کرتے ہیں۔ اس دفعہ بھی ایسا تھا اور پچھلے کالم میں ہماری پیشن گوئی کے تحت فلمTHE HOLDOVERR میں مشکل کردار ادا کرنے کے لئے نئی بلیک امریکنDAVINE RANDOLPHکو دیا گیا تھا۔ اور حسب معمول اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے وہ رو پڑیں کیمرے نے مہمانوں کی صف میں بیٹھے اسی فلم کے مرکزی کردار پال گیامتی کو بھی روتا دکھایا گیا۔ یہ ایک اسکول کے اندر سیاست کی بہترین فلم ہے اور اسکے ہدایت کار الیگزنیڈر پائن مشہور ہیں یہ فلم ایک فلمی عجوبہ ہے اگر اوپن ہائمر نہ ہوتی تو اس فلم کو کئی ایوارڈ ملتے۔ اسکرین پلے کی اہمیت کا اندازہ ڈیوڈلین مشہور برٹش ڈائریکٹر کیEPICفلمیں دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے جو ناولوں کو اسکرین پر لاتے ہیں۔ فلم ڈاکٹر زواگو مثال ہے اور یہاں ایوارڈ بہترین متاثرہ اسکرین پلے کا فلمAMERICAN FICTIONکو دیا گیا تھا۔اور اورخبل اسکرین پلے کا فلمANATOMY OF FALLکو دیا گیا تھا۔ امریکن فکش ایک سیاح فام امریکن فیملی سے تعلق رکھتی ہے جب دوسری فلم میں خوبصورتی کے ساتھ ایک عورت پر اپنے شوہر کو قتل کرنے کا الزام تھا جس کا بیٹا اندھا ہے۔ فلم کی کہانی کو پردے پر لانے میں خلا تھا اور بہترین اسکرین پلے کی حقدار نہیں تھی۔
میوزک(CORIGINAL SCORE) کا ایوارڈ لڈوگ گوران سن کو ملا فلمOPPENHEIMERمیں مناظر کو بڑھانے میں اور جان پیدا کرنے میں فوٹو گرافی کے لئے بھی اسی فلم کو چنا گیا تھا حالانکہ دوسری فلمیں فوٹو گرافی کے لحاظ سے اوپر تھیں جن میںKILLERS OF THE FLOWER MOONمیں دل کو لبھانے والی فوٹو گرافی ہے۔ ایسا تو ہوتا ہے ممبران جلدی میں تھے یا پہلے سے پیکیج بن گیا تھا۔ اب آتے ہیں کارٹون(AIMATED) فلموں پر جنہوں نےLION KINGکے بعد بے حد منافع دیا ہے اسٹوڈیوز کو اس دفعہTHE BOY AND THE HERONکو دیا گیا یہ فلم جاپان نے بنائی تھی لیکن ایوارڈز میں شریک تھی یہ ایک ناول پر ہے جو1937میں لکھا گیا تھا۔ کہ ایک لڑکا جنگ کے دوران اپنی ماں کے مرنے کے بعد اپنے گائوں چلا جاتا ہے۔
ہر سال دوسرے ملکوں کی فلموں کو بھی شریک کیا جاتا ہے۔1958میں انڈیا کی فلم مدرانڈیا نامزد ہوئی تھی اس دفعہ انگلینڈ، اٹلی، جاپان، اسپین اور جرمنی کی فلمیں شامل تھیں اور ایوارڈ دیا گیا برطانیہ کی فلمTHE ZONE OF INTERESTکو ملا اور اسکے پروڈیوسر نے اسرائیل کی حمایت میں7اکتوبر کو حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے یہودیوں کا رونا رویا اور تالیاں سمیٹیں یہ سب پروپیگنڈا تھا۔ جس سے ایوارڈ کی شفافیت پر داغ آتا ہے کہ غلط بات کو درست کرکے دکھایا جارہا ہے۔ بہرحال مہمانوں نے کوئی خاطر خواہ اظہار نہیں کیا۔
اب آتے ہیں کاسیٹوم ڈیزائن پر جس کا ایوارڈPOOR THINGSکو ملا۔ اور اسی شو میں ایک اور ڈرامہ دیکھنے کو ملا کہ یوکرائن پر روسی حملے کے نتیجے میں جو تباہی ہوئی ہے۔ اور اشتہار چلانے پر895دھمکیاں مل چکی ہیں۔ جو جھوٹ پر مبنی ہیں اکاڈمی کو ایسے پروپیگنڈے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ خیال رہے فلسطین میں جو 31ہزار شہری مارے گئے ہیں اس بارے میں کسی نے کچھ نہیں کہا اور اپنی بے حسی اور سرد مہری کا ثبوت دیا شرمناک فعل ہے یہ کارنامہ ڈاکومنیٹری20 DAYS IN MARIVPOLکے میکر کا احتجاج تھا جس پر مہمان خاموش بیٹھے ہے۔
فلمBARBIEجس نے ایک بلین ڈالرز سے زیادہ کمائے ہیں کو صرف گانے کا ایک ایوارڈ ملا یہ فلم بچوں کے لئے اچھی تھی۔ معاون اداکار کے لئے رابرٹ ڈانی جونیئر مستحق تھے۔ جس نے فلم کے ہیروکلین مرضی سے فلم کے گئی مناظر میں سبقت حاصل کی ہے اور اب آتے چار اہم ایوارڈز کی طرف، بہترین اداکارہ کے لئے ہماری پسند اینٹ بیننگ اور للی گلیڈاسٹون تھی لیکن یہ ایوارڈ ایما اسٹون کو فلمPOOR THINGSمیں دے دیا گیا ہر چند کہ اداکاری اچھی تھی لیکن وہ ایوارڈ کی حقدار نہیں تھی۔
فلمOPPENHEIMERمیں آئرش اداکار کلین مرضی بہترین اداکاری پر دیا اور اس فلم کے ڈائریکٹر کرسٹوفرنولن کو بہترین ہدایت کاری پر جواس کے مستحق تھے۔ کہ اس ناول کو خوبصورتی سے ونے چار گھنٹے میں لے کر آئے اور بہترین فلم کا ایوارڈ بھی اسی فلم کو دیا گیا جس کے لئے90فیصدی پیشن گوئیاں تھیں فلم کی کہانی ایٹم کے آئن اسٹائن سے متعلق ہے اور فلم کا ہیرو جو ایک ہی کالج کے ہیں بم بنانے پر بحث میں ہیں۔ اس ایوارڈ سے متعلق یہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ ”پھیکا اور بے مزہ شو” اگر نہ بھی دیکھتے تو کوئی افسوس نہ ہوتا۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here