پاکستان میں نومنتخب حکومت کی تشکیل کا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے ، شہباز شریف نے وزارت اعظمیٰ اور آصف زرداری نے صدر مملکت کا منصب سنبھالنے کے بعد 19رکنی کابینہ کی منظوری دے دی ہے جس میں پرانے چہروں کے ساتھ کچھ نئے چہرے بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں لیکن چیلنجز اپنی جگہ پرموجود ہیں اب دیکھنا ہے کہ نئی حکومت ان چیلنجز کو کس حد تک حل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے ۔ نومنتخب کابینہ میں زیادہ تر پرانے چہرے ہیں جو اس سے قبل بھی کئی مرتبہ پاکسان مسلم لیگ ن کی حکومت میں کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ ایسے کابینہ اراکین میں خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا تنویر حسین، سینیٹر اسحاق ڈار، سینیٹر مصدق ملک، اعظم نذیر تارڑ، ریاض حسین پیرزادہ اور اویس لغاری شامل ہیں۔پہلے مرحلے میں وفاقی کابینہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی رکن پارلیمنٹ کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ حالیہ انتخابات کے بعد پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ان کی جماعت وزیر اعظم کے انتخاب میں ن لیگ کی مدد کرے گی مگر کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی تاہم مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان طے پانے والے ‘پاور شیئرنگ فارمولے’ کے تحت پی پی پی کو کئی آئینی عہدے دیے گئے ہیں اور حال ہی میں آصف علی زرداری پاکستان کے نئے صدر منتخب ہوئے ہیں۔نئی وفاقی کابینہ میں 18 وزرا کے علاوہ ایک وزیر مملکت کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان میں سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن رضا نقوی اور محمد اورنگزیب پہلی مرتبہ وفاق کی سطح پر کابینہ کا حصہ بن رہے ہیں۔ان کے علاوہ سابق بیوروکریٹ احد چیمہ اس سے قبل شہباز شریف کی گذشتہ حکومت میں بھی معاون کی حیثیت میں حکومت کا حصہ رہ چکے ہیں۔توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے مرحلے میں وفاقی کابینہ میں مزید افراد بھی شامل ہو سکتے ہیں اور اس کا حجم بڑھ جائے گا تاہم موجودہ 18 رکنی وفاقی کابینہ میں چند ایسے افراد بھی شامل ہیں جو اس سے قبل وفاقی سطح پر کبھی کابینہ کا حصہ نہیں رہے۔ ان میں سے چند نمایاں ناموں کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ کون ہیں۔موجودہ حکومت سے قبل جب نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے محسن نقوی کا نام تجویز کیا گیا تھا تو اْس وقت بھی اْن کے نام کو چند حلقوں کی جانب سے ‘غیر متوقع’ قرار دیا گیا تھا اور اس وقت خاص طور پر پاکستان تحریکِ انصاف نے ان کی نامزدگی پر اعتراض اٹھایا تھا اور اب محسن نقوی کی بطور رکن وفاقی کابینہ کو بھی ‘غیر متوقع’ کہا جا رہا ہے۔نومنتخب کابینہ میں دوسرا غیر متوقع نام عبدالعلیم خان کا ہے جوکہ استحکام پاکستان پارٹی کے صدر بھی ہیں،2011 سے 2018 کے دوران عبدالعلیم خان سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ان کے بارے میں ن لیگ کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا تھا کہ وہ تحریک انصاف کی مالی طور پر کافی امداد کرتے ہیں۔2018 میں اْن کا نام ابتدائی طور پر پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پر بھی سامنے آیا لیکن قرعہ فال عثمان بزدار کے نام نکلا۔کابینہ میں شامل تیسری غیر متوقع شخصیت جام کمال خان کا تعلق بلوچستان کے ضلع لسبیلہ سے ہے۔ لسبیلہ کو قیام پاکستان سے قبل ایک ریاست کی حیثیت حاصل تھی جو کہ ریاست قلات کا حصہ تھی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے ، پاکستان کو درپیش معاشی مسائل حل کرنے کے لیے فوری ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے اور معمولی فیصلوں کے بغیر یہ مسائل حل ہونے والے نہیں ہیں۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے عہدے کا حلف اٹھانے کے چند گھٹنے بعد ملک کی معاشی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس طلب کیا پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض پروگرام آسان شرائط پر ملتا نظر نہیں آتا بلکہ اس کے لیے حکومت کو جہاں اسٹینڈ بائی پروگرام کامیابی سے مکمل کرنا ہوگا وہیں آئندہ پروگرام کے لیے مزید سخت شرائط پر بھی عمل درآمد کرنا ہوگا۔سب سے پہلا مسئلہ جو نئی حکومت کو درپیش ہو گا وہ بین الااقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے معاہدے کی مدت اپریل میں ختم ہو جائے گی۔جولائی 2023 میں نو ماہ کے لیے کیے گیے اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر فراہم کیے گئے تھے جس کی وجہ سے معیشت کو کچھ سہارا ملا تھا، تاہم نئی حکومت کو ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ ہی اگلے بجٹ کی تیاری اور ملک میں معاشی توازن برقرار رکھنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت ہو گی اور استحکام کے لیے اس کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا پڑے گا۔ پاکستان کو اگلے پانچ برس میں سات ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ درآمدی بل کے لیے جو کچھ دینا ہوگا وہ اس سے کہیں زیادہ ہوگا۔ ایسے میں آئی ایم ایف سے معاہدے کے سوا چارہ نہیں۔نئی حکومت کو ایک طرف تو مہنگائی پر قابو پانا ہوگا اور دوسری طرف بے روزگاری کا گراف بھی نیچے لانا ہوگا۔ یہ کام آسان نہیں۔ برآمدات بڑھائے بغیر زرِ مبادلہ کا حصول ممکن نہ ہوگا۔ایسا لگتا تو نہیں کہ نئی حکومت فوری طور پر ملک میں سیاسی و معاشی استحکام یقینی بنانے میں کامیاب ہوسکے گی۔ معیشت نہ سنبھلی تو مہنگائی کم ہوگی نہ بے روزگاری یوں سیاسی استحکام بھی واقع نہ ہوسکے گا۔
٭٭٭