فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
36

محترم قارئین! صفرالمظفر1445ء کی بالکل آخری تاریخیں چل رہی ہیں۔1445ء کا ماہ ربیع الاول شریف ایک دو دن میں سایہ فگن ہوا چاہتا ہے۔ اہل اسلام کے دل باغ باغ ہیں اور ہر طرف میلاد مصطفٰےۖ کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ عاشقان ر سولۖ اپنے رسول اعظم علیہ السلام سے والہانہ عشق کا باقاعدہ اظہار کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ یوں تو سارا سال سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن ربیع الائول شریف چونکہ حضورۖ کی آمد وپیدائش کا مہینہ ہے اس لئے اس ماہ مقدس واطہر میں خصوصی محافل کا انعقاد ہوتا ہے اللہ پاک جل جلالہ نے ارشاد فرمایا: ترجعہ بے شک آیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور روشن کتاب(پ نمبر6سورہ مائدہ آیت نمبر10) یہ مسئلہ بھی بہت آڑ بنا ہوا ہے۔ حالانکہ قرآن پاک میں بالکل واضح ہے کہ کتاب مبین سے مراد قرآن کریم ہے اور نور سے مراد جناب محمد رسول اللہۖ ہیں۔ دونوں سے قرآن کریم مراد لینا اصول گرائمر کے بھی خلاف ہے کیونکہ درمیان میں وائو عاطفہ ہے اور وائو مفائرت کا تقاضا کرتی ہے جس کا صاف معنیٰ ہے کہ نور اور ہے اور کتاب مبین اور ہے قرآن کریم کی تفسیر جو صحابہ کرام جانتے تھے ان سے بڑھ کر اور کوئی نہیں جانتا کیونکہ ان حضرات نے تفسیر براہ راست صاحب قرآنۖ سے سیکھی جبکہ یہ شرف کسی اور مفسر کو حاصل نہیں ہے چنانچہ ہم اس کی تفسیر سب سے پہلے مفسر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھا سے پوچھتے ہیں تو آپ نے یوں ارشادفرمایا ہے: ترجعہ: بے شک آیا تمہارے پاس نور اللہ کی طرف سے یعنی محمد رسول اللہۖ اور کتاب مبین یعنی روشن کتاب قرآن مجید بس انہی کی اقتدار کرتے ہوئے تمام مفسرین نے یہی نقل کیا ہے۔ رئیس المفسرین علامہ سید محمود آموسی رضی اللہ عنہ صاحب تفسیر رواح المعانی نے یوں نقل کیا ہے۔ اَی نُورُ الاَنوازوالنبی المختار(روح المعانی جلد نمبر6صحفہ نمبر97) آپ نے کمال فرما دیا کہ اس نور سے مراد نور الانوار اور نبی مختارۖ ہے۔ یعنی صرف نور ہی نہیں بلکہ تمام نوروں کا منبع اور صرف نبی ہی نہیں بلکہ مختار علیہ الصلواة و السلام اس میں نور حسی بھی ہے نور معنوی بھی ہے۔ چنانچہ علامہ صاوی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ترجعہ: حضور نبی کریمۖ کا نام نور اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ بصائر کو روشن کرتے ہیں اور ان کو صحیح راہ دکھاتے ہیں۔ اس لئے کتاب پر صحابہ اور معنوی نور کی اصل ہیں اس تفسیر میں واضح ہوگیا کہ آپ نوربھی ہیں اور نور رضوی بھی آپ صرف نوریعنی نور ہدایت ہی نہیں بلکہ دونوں نوروں ہیں اگر اس اصول کو دیکھا جائے۔ قرآن کریم میں مطلق نور کہا گیا ہے نور حسی اور نہ نور ہدایت نور معنویٰ کی لگائی گئی ہے معلوم ہوا کہ حضورۖ نوربھی ہیں ،نور معنوی بھی ہیں انور ہدایت بھی ہیں انورعرش بھی ہیں نور عرش بھی ہیں نور لوح بھی ہیں ،نور قلم بھی، نور مکان بھی ہیں اور نور لامکان بھی، نور مخلوق بھی ہیں اور نور خالق بھی ہیں ، اسی لئے مضرین نے نور الانور کہا ہے تو بالکل واضح کردیا کہ آپ نور حسی بھی ہیں اور نور معنوی بھی اور نور ہدایت بھی امام غزالی نے جو نور کی تعریف کی ہے وہ صرف حضورۖ پر ہی صادق آئی ہے فرماتے ہیں کہ النور ظاہر لیلة مظہر بغیرہ یعنی نورو ہ ہے جو خود مظاہر ہو اور ارادوں کو ظاہر کرے۔ مزید فرمایا: النور جو ہر مجرد ظاہریعنی نور جوہر محشر ہے جو خود چمکتا ہے اوروں کو چمکاتا ہے اس تعریف کے لحاظ نور کا اطلاق خدا پر نہیں ہوسکتا بلکہ رضوی مصطفیٰ پر ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جو ہر اور عرض ہونے سے پاک ہے نور حسی کی صورت میں دیکھنا ہو تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول قابل غور ہے فرمایا” ترجمعہ جب آپ مسکراتے تو دیواریں منور ہو جاتیں(ترمذہ شریف، خصائص کبریٰ، شغار شریف) ترمذی شریف میں ہے کہ جب آپ مسکراتے تو آپ کے دانتوں کے سوراخوں سے نور نکاتا بخاری شریف میں ہے ترجہ: آپ کی پیشانی کے بل کھلتے تو ان سے نور چھنتا یہ سب صورتیں نور حسی کی ہیں۔ رسول خداۖ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ! میں اللہ کے نو سے ہوں اور مئومن میرے نور سے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول خداۖ سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز نہیں دیکھی گویا آپ کے جو مقدس سے تھا یعنی آپ کے چہرہ اقدس میں گھوم رہا تھا اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here