مجھ سے آرمی چیف بات کیوں نہیں کرتے؟

0
128
پیر مکرم الحق

خطرناک بن جانے کی دھمکی دینے والے رہنما اب منتیں کرتے سنائی دیتے ہیں۔ اللہ کی ذات سب سے افضل اور کل طاقت رکھنے والی ذات ہے۔ انسان تو ایک پانی کا بلبلا ہے اب کے علاوہ تکبر کسی کو نہیں بھاتا ہے۔ بڑے فرعون بے سامان خاک میں دفن ہو کر ختم ہوگئے جو بڑے بڑے دعوے کرنے والے ایسے غائب ہوگئے کہ کوئی نام لینا تو دور نام جانتا بھی نہیں کوئی بھی اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ پہلے دھمکیاں دو پھر پیروں پر گر جائو یہی راستہ تحریک انصاف دو پھر پیروں پر گر جائو یہی راستہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران نے خان اپنایا ہے۔ اب تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اب پچھتاوے سے کیا ہوتا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، کتنا سمجھایا تھا کہ اس وقت کی حزب مخالف سے بات کرلو لیکن خان صاحب تو ایسے اچھل رہے تھے کہ کاندھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دے رہے تھے کہ میں نہ مانوں اپنے کو افضل سمجھتے ہوئے کہا کہ میں بوٹ پالش کرنے والوں سے ہاتھ نہیں ملاونگا۔ کتنا تکبر اور گمان تھا اپنے آپ پر اب جب انکے چہیتے چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں تو انہیں اکبر ایس بابر بھی یاد آرہے ہیں کہ وہ صحیح کہتا تھا جب ہوا کے گھوڑے تیر سوار تھے تو اکبر بابر جیسے مخلص شخص کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔فیاض الحسن چوہان اور فواد ڈبو کو پارٹی سے ترجمان بنا ڈالا۔ اب وہی انکے خلاف گواہیاں دیتے پھر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے پانچ پانچ پارٹیاں تبدیل کرکے ڈکار بھی نہیں لی وہ انکے لاڈلے بن گئے تھے۔ پھر گئے بھی تو ایسے کہ”جیسے گدھے کے سر سے سینگ”! عمران خان سے اب پاکستان کی عوام یہی درخواست کریگی کہ اپنی جماعت اور حکومت کا تو صفایا کردیا خدا کے لئے پاکستان کو مزید نقصان پہنچنے سے گریز کریں! اپنے غلط فیصلوں کی قیمت پاکستان کی سالمیت اور عوام کی خوشحالی کی تباہی کی صورت میں وصول نہ کریں۔ اپنے بیرونی دوستوں کو پاکستان کے خلاف استعمال مت کرو۔ جب کرنا تھا تو اپنے پونے چار سالہ حکومت میں کرنا تھا جو نہ کیا اب تم حکومت کرنے اور حزب مخالف کے رہنما کی حیثیت سے بری طرح ناکام ہوچکے ہو تو وہ کام نہ کریں کہ ہم تو ڈوب گے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ وہ بھی تو تھے سیاسی رہنما جنرل اپنی جان قربان کردی لیکن ملک سالمیت اور سلامتی پر کوئی آنچ آنے نہیں دی، ورنہ وہ بھی اگر چاہتے کے ہماری تو جان جارہی ہے اپنے کارکنوں کو آخری پیغام دے جاتے کہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ ناہی انہوں نے پیر پکڑے بلکہ رحم کی اپیل تک نہیں وہ محب وطن رہنما تھے انہیںبھی شکایتیں تھیں لیکن اپنی جان کا نظرانہ دیکر حیات جاوداں حاصل کی۔ عزت و وقار سے چلے گئے پورے گھرانے کو قربان کر گئے اپنے خون سے وطن کو روشن کر گئے۔ ان سے سیکھیں کہ کیسے جیا جاتا ہے اور کیسے سینہ سپہ ہو کر جان لٹا دی جاتی ہے کہ کبھی لوگ بھولیں نہیں۔ آج انکے بچوں کو بھی عوام عزت دیتی ہے وہ رہنما جو لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں وہ کسی بیانیہ کی وجہ سے مقبول نہیں ہوئے تھے اپنے منشور اور عزم کے اظہار کی وجہ سے عوام نے ان سے محبت کی تھی۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے صرف بھٹو خاندان کی قربانی نہیں دی، اس پارٹی کے حمایتی گھرانوں کوڑے کھائے دسووں کو پھانسیاں بھی ملیں کئی دیس بدر ہوئے، کئی ان میں سے زندہ واپس نہ آسکے پردیس میں سسک سسک کر مر گئے جو آج بھی زندہ ہیں وہ مردوں سے بھی بدتر ہیں۔ حیرت ہوتی ہے جو آج بھی بھٹو کو یاد کرتے ہیں جو آج بھی اس کے نام پر ووٹ دیتے ہیں وہ کس مٹی کے ہیں کیا دل رکھتے ہیں کتنی محبت انکے دل میں آج بھی زندہ ہے۔44سال گزر گئے آج بھی بھٹو اور انکے خاندان کی قربانی کا سوچ کر آنکھیں نم ہوتے گنہگار آنکھوں نے دیکھی ہیں۔ عمران خان کو تو عدالتیں بھی دیکھ کرGood to see you’کہتی ہیں جس طرح کی تذلیل اس عظیم رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی کی جاتی تھی عوام نے سب کچھ دیکھا محسوس کیا اور آج تک پچھتاوا رکھتے ہیں کہ ہم نے زمین الٹ کیوں نہ دی والد جیل میں تھا آخری ملاقات کیلئے بیٹی بینظیر گئی تو پھانسی گھاٹ کی سلاخوں کے دوسری طرف کھڑی بیٹی نے التجا کی نحیف والد سے گلے ملنے کی التجا کی کے ظالموں مجھے اپنے باپ کو گلے لگا کر رونے کی اجازت تو دیدو لیکن وہ بھی نہیں دیگئی بیٹی روتی ہوئی پھانسی گھاٹ سے نکلی والد جس نے اس ملک کو آئین دیا ایٹمی طاقت دی90ہزار قیدیوںں کو بھارت سے چھڑوا کر لایا تھا، بے سی سے اپنی لاڈلی بیٹی کو روتا ہوا دیکھ کر ایک آنسو بھی نہیں بہا پایا کہ دشمن ہے نہ سوچیں کہ بھٹو برداشت نہیں کرسکا۔
کرو کج جبیں پہ سر کفن میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
فیض کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here