سورہ روم کی اکتالیسویں آیت ظہر الفساد فِی البرِ و البحرِ بِما کسبت یدِی الناسِ لِیذِیقہم بعض الذِی عمِلوا لعلہم یرجِعون کا ترجمہ سید مودودی نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔ اس فساد کا یہاں انگریزی ترجمہ کرپشن کیا جاتا ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان میں کرپشن نقطہ عروج سے بھی چند درجے آگے نکل چکی ہے اور ظاہر ہے یہ ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے، جس کا مزہ ہم چکھ رہے ہیں اور ارشادِ باری تعالیٰ کے مطابق یہ اس لئے ہے تاکہ ہم برے اعمال سے باز آجائیں۔دنیا کی پانچویں بڑی جمہوریت میں پچیس کروڑ عوام پر انکی مرضی کے علی الرغم، مصدقہ کرپٹ افراد کو حکمرانی کے محلات میں پہنچا دینا تاکہ کرپشن مافیا اپنی لوٹ مار جاری رکھ سکے، فساد فی البحر و بر نہیں تو اور کیا ہے؟ اس وقت ہر کسی کا ایک ہی سوال ہے کہ ان ناانصافیوں کا خاتمہ کب ہوگا؟ سیاسی اور معاشی استحکام کب حاصل ہوگا؟ ظلم و جبر کی فضا کی آلودگیاں کب ختم ہونگی؟ ان مشکل سوالوں کے جوابات تو کسی کے پاس نہیں لیکن زوہیب نازک صاحب کے ان اشعار سے آپ کچھ سراغ لگا سکتے ہیں۔
کٹھن ہونے کو ہے جو شوق کا ہر مرحلہ صاحب
ذرا سوچیں کہ لاحق کیا ہے ہم کو عارضہ صاحب
کسی بھی جھوٹ پر چپ سادھنا میرا ہوا مشکل
یہی مشکل ہے میری اور میرا مسئلہ صاحب
سناں قصہ کیا میں حضرت انسان کا پل میں
بہت صدیوں کا ہے اور ہے قدیمی واقعہ صاحب
میرا مطلب انہی سے جو ہوس کے بس پجاری ہیں
نہیں ان سے ہمارا دور کا بھی واسطہ صاحب
کسی منزل کسی رستے پہ کوئی دوش ہی کب ہے
ہے لوٹا رہبروں نے بس ہمارا قافلہ صاحب
آٹھ فروری والی انتخابی مشق کے نتائج اور اس کے بعد ہونے والے کامیاب مظاہروں سے تو یہ لگتا ہے کہ جھوٹ پر چپ سادھ لینے والی روایت اب ختم ہو رہی ہے لیکن پچھتر سال تک بند رہنے والی مٹھی اب اتنی آسانی سے کھلنے سے بھی رہی۔ شوق کے کئی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ وقت کے فرعون، شداد اور نمرود اپنے بھیانک انجام تک پہنچتے پہنچتے ہی پہنچتے ہیں۔ پھر اس کیلئے آتشِ نمرود میں کودنے والے ابراہیم اور فرعون کے گھر پرورش پانے والے موسی کا ہونا بھی تو ضروری ہے۔ فیض صاحب نے بھی اچھا تبصرہ فرمایا ہے۔
یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے
کل سے نیکیوں کا موسمِ بہار بھی شروع ہونے والا ہے۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ ضد و ہٹ دھرمی چھوڑ کر، عوام الناس پر چھائی ہوئی مایوسی اور پژمردگی کا ازالہ کیا جائے۔ موجودہ مقتدر طبقہ، خیرات و صدقات کی تقسیم کا نظام نان پرافٹ تنظیموں کیلئے چھوڑ دے اور قرادادِ مقاصد کے مطابق، عوامی رائے سے منتخب ہونے والے نمائیندوں کو حکومتی اختیارات منتقل کر دے۔ گیریژن اسٹیٹ والا تجربہ اگر پچھتر سال بعد بھی ناکام ہی ہے تو اب ہار مان لینی چاہئے۔
آخر میں فیض صاحب کے چند اشعار پیش خدمت ہیں جو امید کی کرنیں بکھیر رہے ہیں۔
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں
علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں