”باپ ”جو شجر سایہ دار، محبت کا پتوار، تپتی دوپہر ،ٹھٹھرتی راتوں میں زندگی کا بوجھ لادے اور اہلخانہ کی راحت کا سامان کرنے والے عظمت کے مینار کو سلام پیش کیے جانے کا حقدار ہے۔دنیا بھر میں ” فادرز ڈے” یعنی والد سے محبت کے اظہار کا عالمی دن منایا گیاجس کا مقصد اولاد کیلئے والد کی محبت شفقت، تریبت میں ان کے کردار کو اُجاگر کرنا تھا، فادرز ڈے پر والد کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی خدمات کو سراہا جاتا ہے ،بچے تحائف دے کر بھی والد سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں،والد کے رشتے کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا ہے۔ آج 21ویں صدی میں والد کی وہ اہمیت ہے جوکہ سو سال پہلے تھی اور رہتی دنیا تک رہے گی کیونکہ باپ ایک احساس ہے ، بچے کی نشونما کیلئے ماں بچے کو پیدا کرتی ہے، پرورش کرتی ہے لیکن باپ اس کی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے ، باپ کی شفقت ایک چھت کی مانند ہے جس پر ہر بچے کا مضبوط مستقبل ہوتا ہے ، امریکہ میں ہم ہر سال ایک دن فادر ڈے یا مدر ڈے مناتے ہیں ، اچھی بات ہے کہ تمام خاندان اسی بہانے جمع ہوجاتا ہے ، ایسا ہونا ہر خاندان کے لیے ضروری ہے، بچے ، بڑے ہوکر انہی روایات کو لے کر چلتے ہیں اور ایک دوسرے سے قربت و محبت پروان چڑھتی ہے ، باپ کا رول سرپرستی کرنا ہے ، بچوں میں قربت و محبت کے ساتھ ساتھ انہیں خوداعتمادی دینا ہوتا ہے ، جس گھر میں باپ یا دادا نہ ہو اس گھر میں ایک دوسرے کی پہچان کا فقدان ہوتا ہے ، باپ کا کام خاندان کو اکٹھا جمع کر کے انہیں ایک دوسرے کے قریب لانا اور ایک ایسالنک پید اکرنا ہوتا ہے جسے بچے ہمیشہ ساتھ لے کر چلتے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ والدین کے طور طریقہ کا اکثر بچوں کی نشو نما پر گہرا اثر پڑتا ہے ، ہر بچہ تعلیم کو سکول و کالج سے حاصل کرتا ہے لیکن تربیت گھر سے لیتا ہے ، اس تربیت کا اثر اس کی تمام زندگی پر پڑتا ہے ، باپ کی زندگی میں رہنے کا سٹائل بیٹے کی زندگی اور بیٹی کی تمام تربیت ماں کے زیر اثر رہتی ہے ، باپ بچوں کو حوصلہ سکھاتا ہے ، خوداعتمادی سکھاتا ہے ، دنیا میںلوگوں کے ساتھ اُٹھنا ،بیٹھنا سکھاتا ہے ، سائنس کے تجربہ سے پتہ چلتا ہے کہ باپ کا رول بچے کی نشونما میں بہت کارآمد ثابت ہوتا ہے ، ڈاکٹر پال آماٹو چائلڈ سپیشلسٹ نے اپنی ریسرچ میں کہا ہے کہ باپ کا رول بچوں کی نشونما میں ان کے مستقبل پر ہمیشہ کے لیے اثر انداز رہتا ہے ، ان کے مطابق ماں کی طرح جب باپ بچے کو گود میں لیتا ہے تو بچہ سکون محسوس کرتا ہے ، اس لیے ماں کے علاوہ باپ کو بھی بچے کوگود میں لینا چاہئے، وہ اس احساس کو ساری عمر کے لیے لے کر چلتا ہے ، انھوں نے کہا کہ باپ ایک چھتری کے سائے کی طرح بچے کے سرپر رہتا ہے جس سے ہر بچہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے ، باپ کو چاہئے کہ روزانہ بچوں کے ہمراہ وقت گزارے ، ان کے ساتھ کھیل کود کرے ، ان کے ساتھ ٹی وی دیکھے یا گیم کھیلے، اس سے بچوں میں با پ کی احساسیت میں اضافہ ہوتا ہے ، اس سے ثابت ہوا ہے کہ باپ ہر بچے کے لیے ایک شفقت کی چادر ہوتی ہے ، جس کی ہر بچے کو ضرورت ہوتی ہے ، آج اگر ہر باپ اپنے بچوں پر ٹائم لگاتا ہے تو بچے بھی بڑے ہو کر اسی انداز سے باپ پر وقت لگائیں گے ، ہمارے ممالک میں باپ کا ساتھ صبح و شام ہوتا ہے ، جبکہ امریکہ میں باپ بھی کبھی بچوں کے ساتھ وقت صرف کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ پھر بچے بھی سال میں ایک بار اپنے باپ کو Father Day ڈنر پر لے جاتے ہیں، باقی دنوں میں والدین بچوں کے منتظر ہی رہتے ہیں ، وقت سب سے ظالم چیز ہے ، بچے نہیں دیکھتے کہ باپ نے تمام زندگی بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت یا ان کی ضروریات کیلئے تمام زندگی کتنی محنت کی تھی، بچے صرف اس بات کو اہمیت دیتے ہیں کہ باپ نے ان کے ہمراہ کتنا وقت گزارا ، کتنی محبت دی تھی ، ہم اپنے مستقبل کی آسائش کے لیے مال و دولت تو خوب جمع کرتے ہیں جوکہ بڑھاپے میں کسی کے کام نہیں آتی، اصل سرمایہ آپ کی اپنی اولاد ہے ، ان پر لگایا ہوا وقت ہی اصل سرمایہ ہے جوکہ آپ کے بڑھاپے میں کام آئے گا، ورنہ ایسا نہ ہو کہ آپ کا بڑھاپہ بھی آڈلٹ ڈے کیئر سینٹر میں گزرے۔ کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ مدر ڈے اور فادر ڈے غیر مسلم اور مغرب کی روایات ہیں ، ہمیں روایات کے مقاصد کو دیکھنا چاہئے کہ وہ معاشرے میں اصلاح کا باعث بن رہی ہیں کہ نہیں ، اگر فادر ز ڈے سے خاندانوں کو اکٹھاکرنے اور اولاد کی جانب سے والدین کے لیے محبت کے اظہارکا موجب بنے تو اس کو منانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بچوں کو روز ہی فادر ڈے اور مدر ڈے منانا چاہئے تاکہ خاندانوں میں محبت ، بھروسے کا رشتہ ہمیشہ بنا رہے ۔
٭٭٭