کفایت شعاری یا ڈیفالٹ !!!

0
84
مجیب ایس لودھی

پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین موڑ پر کھڑا ہے، یعنی نازک دور سے بھی بدتر پوزیشن پر آ گیا ہے ،پوری دنیا میں ڈیفالٹ ہونے کی اطلاعات گردش میں ہیں، لیکن ایسے وقت میں حکومت کو مزید قرض لینے کی بجائے اپنے اخراجات میں بھی کمی کرنے پر توجہ دینی چاہئے ، حکمران ملک کو بچانے کے لیے عالمی اداروں سمیت آئی ایم ایف سے قرض پر قرض لے رہے ہیں جس سے مالی پوزیشن میں وقتی بہتری آتی ہے لیکن بعدازاں پھر بات قرضوں تک جا پہنچتی ہے۔موجودہ دور میں حکومت کو اپنے ہی سرکاری اداروں کے بجٹ اور سہولیات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ، اراکین اسمبلی ، سرکاری ملازمین کو ملنے والی مراعات ہی کم دی جائیں تو بات قرض تک نہیں پہنچے گی ، اس وقت بیورو کریسی کو جو مراعات دی جا رہی ہیں وہ ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی حکومتی عہدیدار کو نہیں مل رہی ہیں ، ہر سرکاری ملازم کو ہزاروں لیٹر مفت پیٹرول فراہم کیا جاتا ہے ، جبکہ میڈیکل الائونس اور غیر ملکی ہسپتالوں میں علاج کی سہولیات الگ مہیا کی جاتی ہیں، یعنی اگر کسی رکن اسمبلی کو زکام بھی ہو جائے تو وہ علاج کے لیے امریکہ کے ہسپتال کا انتخاب کرتا ہے تاکہ سیر سپاٹا بھی ہوجائے تو علاج کی مد میں حکومت سے وافر رقم بھی بٹور لی جائے ۔ایسے حالات میں جب ملک ڈیفالٹ کے دوراہے پر کھڑا ہے ہم اپنی عیاشیوں کو کم کرنے پر کیوں راضی نہیں ہیں، افواج پاکستان ملک کا دفاعی ادارہ ضرور ہے لیکن جب ملک میں مالی طور پر ہنگامی حالات ہوں تو ان کو بھی اپنے بجٹ اور مراعاتوں میں کمی لانی چاہئے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے ، اس وقت اراکین اسمبلی اور حکمرانوں کے زیر استعمال لکژری گاڑیوں کی تعداد ہی حیران کن ہے جن کی مجموعی رقم اربوں میں بنتی ہے اور ان گاڑیوں کے لیے پیٹرول بھی حکومتی جیب سے ادا کیا جا رہا ہے ۔
سرکاری ملازمین کی آمدو رفت اور غیرملکی سفر کے اخراجات تو ایک طرف ان کے ذاتی بل بھی عوامی جیبوں سے حاصل کردہ رقم سے ہی ادا کیے جاتے ہیں، یعنی بجلی ، گیس اور دیگر یوٹیلٹی بلز کی مد میں ادائیگی عوامی بجٹ سے کی جا رہی ہے ، ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات کو سازگار بنایا جا ئے ، جس طرح عام ملازم پیشہ افراد اپنے اخراجات خود اٹھاتے ہیں اس طرح سرکاری ملازمین کو بھی پابند کیا جانا چاہئے کہ وہ اپنے اخراجات اپنی جیبوں سے ادا کریں۔ خاص طور پر اس موقع پر جب ملک ڈیفالٹ کی نہج پر پہنچ گیا ہے ، حکومت کو وقتی طورپر اصلاحی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں مزید نقصان سے بچا جا سکے ، اگر سرکاری سطح پر کفایت شعاری کی پالیسی اپنائے جائے تو صرف ایک ہی سال میں حکومت اپنے قرضوں میں نمایاں کمی کرنے کی پوزیشن میں آسکتی ہے جبکہ مزید قرض کے لیے آئی ایم ایف سمیت دیگر اداروں کے پاس جانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی ،اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی قوم میں شعور اُجاگر کیا جائے غیر ملکی اشیا درآمد کرنے کی بجائے ملکی مصنوعات کے استعمال کو بڑھایا جائے تاکہ سرمایہ بیرون ملک منتقل ہونے سے روکا جا سکے۔پاکستان میں روز مرہ استعمال کی سینکڑوں اشیا اس وقت بیرون ممالک سے شپنگ کی جا رہی ہیں جس کے لیے مقامی بینکوں نے ایل سی کی سہولت دوبارہ شروع کر دی ہے تاکہ غیر ملکی کمپنیوں کو رقم ادائیگی کی گارنٹی دی جا سکے جس کی بنیاد پر اشیا کی پاکستان درآمد ممکن بنائی جا رہی ہے ۔
موجودہ حکومت نے منصب سنبھالتے ہی غیر ملکی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی جس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہوا تھا لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد اشرافیہ کے دبائو پر یہ پابندی اُٹھا لی گئی تھی ، جس سے ایک مرتبہ پھر ملکی سرمایہ بیرون ممالک منتقل ہونا شروع ہو گیا تھا ، اس وقت پاکستان کو بچانے کے لیے حکومت اور عوام دونوں کو مل کر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے ، جرمنی شہری آج بھی ملک کو بچانے کے لیے رات کے اوقات میں اضافی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں ، یعنی جرمن شہری مختلف کمپنیوں میں طے شدہ اوقات کے دوران کام کرتے ہیں لیکن ہر جرمن شہری دفتر سے چھٹی کے بعد کچھ گھنٹے آرام کرنے کے بعد رضا کارانہ طور پر رات کے کچھ گھنٹوں کے لیے اپنی کمپنیوں ، دفاتر میں اضافی اور بلامعاوضہ کام کرتے ہیں تاکہ ملک کو فائدہ ہو، اس مثال کا یہ مقصد نہیں کہ تمام پاکستانی بلامعاوضہ کمپنیوں میں اضافی وقت کام کریں لیکن اس کاوش کو سمجھتے ہوئے انفرادی طور پر ایسی کاوشیں بروئے کار لائیں جس سے ملک کی معیشت کو فائدہ ہو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here