عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق !!!

0
17

نبی اکرم ۖ کا فرمان ہے:! من حج فزار قبرِی بعد موتِی ان من زارنِی فِی حیاتِی!
یعنی جس نے میری وفات کے بعد حج کیا پھر میری قبر کی زیارت کی گویا کہ اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔(شعب الایمان،ج 3،ص 489،حدیث:4154) اللہ تعالیٰ کی پاک اور بے نیاز ذات نے حجِ بیت اللہ کیلئے مکہ مکرم بلایا تو بہت ساری شرائط اور فارملٹیز کے ساتھ دعوت دی۔ میقات کے مقام کا تعین کرکے وہاں احرام باندھنے کی ہدایت کی۔ سر ننگا رکھنا ضروری قرار دیا اور ساتھ ہی بند جوتے پہننے پر بھی پابندی لگا دی۔ حرمِ پاک میں داخل ہونے کی اجازت بھی عمرہ کی ادائیگی کے ساتھ مشروط رکھی۔ اسی طرح مکہ سے رخصتی کے بھی آداب اور قواعد و ضوابط بتائے، جس میں طوافِ وداع شامل ہے لیکن جب خانہ کعبہ سے رخصت ہونے کے بعد مدینہ منور میں حاضری کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ اسی بے نیاز ذاتِ نے کوئی فارملٹی تجویز نہیں فرمائی۔ کسی خاص لباس کی ضرورت نہیں۔ کسی خاص وقت کا تعین نہیں۔ آپکی مرضی ہے کہ سر ڈھانپیں یا نہیں۔ اسی طرح، جس طرح کے جوتے آپکو پسند ہوں، استعمال کریں۔ آپ پر کوئی پابندی نہیں۔ مکہ کے پابندیوں والے سفر کے بعد، مدینہ کا آزادانہ سفر پسند تو آنا ہی تھا بلکہ سچ پوچھیں تو خوشی سے پائوں زمیں پر نہ ٹکتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطری طور پر آزادی پسند بنایا ہے۔ اسی لئے، امریکہ میں رہتے ہوئے، کسی زمانے میں جب جاب پر چار دن فارمل لباس پہنے کی پابندی کے بعد پانچویں دن Casual Friday منایا جاتا تھا تو سارا اسٹاف خوشی سے پھولا نہیں سماتا تھا۔بدھ، انیس جون، کا دن ہمارے لئے انتہائی خاص اہمیت کا دن ثابت ہوا۔ علی الصبح، ہم نے مکہ مکرم سے سفرِ مدینہ طیبہ کا آغاز کیا۔ مدینہ حاضری کا تصور کر کے، پہلے تو ایک خاص قسم کا نشہ چڑھتا ہوا محسوس ہوا اور پھر بے تابیِ دل نے کچھ اس طرح بے چین کیا کہ اپنے آپ پر قابو رکھنا ہی مشکل ہو گیا۔ اتنے میں، ہمارے سفر کے ساتھی، عمران صدیقی صاحب نے گاڑی کے ڈرائیور کی مدد سے انٹرنیٹ پر موجود نعتیں سنوانا شروع کر دیں۔ انکی اپنی سیلیکشن بھی اچھی تھی لیکن ساتھ ساتھ ہر شریکِ سفر نے اپنی پسند کی نعت کی فرمائش کرنا بھی شروع کردی۔ فرطِ جذبات سے تقریبا ہر آنکھ اشکبار تھی۔ اپنے پیارے نبی ۖ کے ہاں حاضری کی توفیق مل جانا کوئی معمولی معاملہ تو نہیں۔ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہوئے، ہم سب پروردگارِ عالم کے بیحد شکر گزار تھے۔ عشق و محبت کے ان آنسوں میں بلا شبہ شکر کے آنسو بھی شامل تھے۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اپنی اس اندرونی اضطرابی بلکہ ہیجانی کیفیت کو بچوں سے کیسے چھپاں کہ کچھ دیر بعد ساری گاڑی سے ہی سسکیوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ معلوم ہوا کہ ہر کوئی تقریبا میری جیسی کیفیت کا ہی شکار ہے۔ بہرحال، انہی کیفیات سے گزرتے گزرتے بدر کے اس مقام پر پہنچے جہاں غزو بدر وقوع پذیر ہوا تھا۔ اب یہاں شہدائے بدر کی قبور کے علاوہ اور بھی بہت ساری نوادرات اور یادیں محفوظ ہیں۔ گرمی اپنی انتہا پر تھی، اس لئے ہم یہاں زیادہ وقت تو نہیں گزار سکے لیکن شہدائے بدر کے ان احسانات کا ضرور احساس ہوا کہ جن کی بدولت آج ہم اسلام جیسے دین کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا کہ !
صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
معرک وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
بدر سے مدینہ کی جانب نکلے تو ہمارا ڈرائیور ہمیں بئرِ روحا لے گیا۔ یہ ایک ایسا کنواں ہے جس کے پانی سے بہت سے مریضوں کو شفا ملتی ہے۔مدینہ منور کی جانب ہمارے سفر کو نعتوں نے چار چاند لگائے رکھے۔ خیال آرہا ہے کہ کیوں نہ آپ کے ساتھ بھی اقبال عظیم صاحب کی اس نعت کے چند اشعار شئیر کر لوں، جو کہ مجھے بیحد پسند ہے۔
مدینہ کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ
کس کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
مدینہ منور میں داخلے کی روداد تو اب اگلے کالم میں پیش کروں گا لیکن اتنا بتا دوں کہ اللہ تعالی کی ذاتِ بابرکات نے ہمیں اپنے نبی ۖ کے شہر میں سکون و اطمینان کے ایسے دو دن عطا فرمائے کہ ہمارے لئے انہیں بھولنا مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔ آخر میں علامہ اقبال کی بھی سن لیں۔
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دِیں بت کد تصورات
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here