بیٹوں کی اقسام!!!

0
43

بیٹے پانچ قسم کے ہوتے ہیں
١: پہلے وہ جنہیں والدین کسی کام کو کرنے کا حْکم دیں تو کہنا نہیں مانتے، یہ عاق ہیں۔٢: دوسرے وہ ہیں جنہیں والدین کسی کام کو کرنے کا کہہ دیں تو کر تو دیتے ہیں مگر بے دلی اور کراہت کے ساتھ، یہ کسی قسم کے اجر سے محروم رہتے ہیں۔٣: تیسری قسم کے بیٹے وہ ہیں جنہیں والدین کوئی کام کرنے کا کہہ دیں تو کر تو دیتے ہیں مگر بڑبڑاتے ہوئے، سْنا سْنا کر، احسان جتلا کر، بکواس بازی کر کر کے۔ یہ کام کر کے بھی گھاٹے میں ہیں اور گناہ کما رہے ہیں۔٤: چوتھی قسم کے وہ بیٹے ہیں جنہیں والدین کوئی کام بتا دیں تو خوش دلی سے کرتے ہیں، یہ اجر کماتے ہیں اور ایسے بیٹے بہت کم ہوتے ہیں۔٥: پانچویں قسم کے وہ بیٹے ہیں جو والدین کی ضرورتوں کے کام اْن کے کہنے سے پہلے کر دیتے ہیں، یہ خوش بخت بیٹوں کی نادر قسم ہیں۔آخری دو قسم کے بیٹے؛ ان کی عمر میں برکت، رزق میں وسعت، ان کے معاملات کی آسانی اور ان کے سینوں میں پڑی راحت اور وسعت کے بارے میں کچھ نا پوچھیئے، یہ تو بس اللہ ”اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے مخصوص کر لیتا ہے اور اس کا فضل بہت بڑا ہے”۔ایک چھوٹا سا سوال ہے ہر اْس کرم فرما کیلئے جو اس وقت یہ پڑھ رہا ہے: آپ اوپر بیان کیئے گئے بیٹوں کی قسموں میں سے کون سی قسم کے بیٹے ہیں؟(بھاگ کر اپنی ماں کے سر پر بوسہ دینے سے پہلے) اپنے آپ سے یہ پوچھ کر دیکھیئے کہ والدین کے ساتھ ”بِر” یا حْسن سلوک یا راستبازی ہوتی کیا ہے؟یہ حْسن سلوک؛ ماں یا باپ کے سر پر ایک بوسہ لے لینے کا نام نہیں ہے، ناں ہی ان کے ہاتھوں پر یا حتی کہ اْن کے پاؤں پر بوسہ لینے کا نام ہے۔ کہیں یہ کر کے تو اس گمان میں میں ناں پڑ جائے کہ تو نے ان کی رضا کو پا لیا ہے۔حْسن سلوک یہ ہے کہ تو اْن کے دل میں آئی ہوئی خواہش کو محسوس کرے اور پھر اْن کے حْکم کا انتظار کیئے بغیر اس خواہش کو پورا کر دے۔حْسن سلوک یہ ہے کہ تو یہ جاننے کی کوشش میں لگا رہے کہ انہیں کونسی بات خوشی دیتی ہے اور پھر اْس کام کو جلدی سے کر ڈالے۔ اور تو یہ جاننے کی کوشش کرے کہ انہیں کس بات سے دْکھ پہنچتا ہے اور پھر اس کوشش میں رہے کہ وہ تجھ سے ایسی کوئی چیز کبھی بھی نا دیکھ پائیں۔اْن سے حسن سلوک یہ ہے کہ تجھے ان کا احساس ہو، تو ان کیلئے بات چیت کا وقت نکالتا ہو، انہیں کسی چیز کے کھانے پینے کی طلب ہو تو حاضر کر دیتا ہو بھلے یہ ایک چائے کا کپ ہی کیوں ناں ہو۔حسن سلوک یہ بھی ہے کہ تو اْن کے آرام اور راحت کا خیال رکھے بھلے اس کیلئے اپنی راحت کو ہی کیوں نا تیاگنا پڑے۔ اگر تیری دوستوں میں شب بیداری انہیں شاق گزرتی ہے تو تیرا جلدی سو جانا بھی ان کے ساتھ ایک حسن سلوک کی ہی ایک مثال ہے۔حسن سلوک یہ بھی ہے کہ ان کی خاطر اپنی دعوتیں ضیافتیں چھوڑ دے اگر اس سے تیرا اْن کے ساتھ میل جول متاثر ہوتا ہے تو۔ایک مناسب ریسٹورنٹ پر ان کے ساتھ کھانا، حج و عمرہ میں ان کی راحت کے پیش نظر اچھے ہوٹل میں ان کے قیام کا بندوبست، حتی کہ کہیں چھوٹی موٹی تفریح اور پکنک جو تیرے والدین کے دل کو سرور دے اور وہ اپنی اس عمر میں بھی خوشی کا احساس پائیں۔حسن سلوک یہ بھی ہے کہ تیرے والدین تیرے مال سے مستفیض ہو رہے ہوں بھلے وہ خود کیوں ناں مالدار ہوں۔ اور تیرا یہ جانے بغیر کہ ان کے پاس اب کتنے پیسے ہیں اور انہیں ضرورت ہے بھی یا کہ نہیں تو ان پر خرچ کرتا رہے۔حس سلوک یہ بھی ہے کہ تو ان کی حتی المقدور راحت تلاش کرتا رہے اور انہوں نے تیری ولادت سے اب تک جو کچھ خدمت کر دی ہے کو کافی سمجھے اور اب ان کے احسانات کے بدلے میں کچھ نا کچھ کرتا رہے۔حس سلوک یہ بھی ہے کہ تو ان کے لبوں پر کسی طرح ہنسی لاتا رہے بھلے تو اپنے نظروں میں کیوں ناں مسخرہ ہی لگ رہا ہو۔
آخری بات: والدین سے حسن سلوک تیرے اور تیرے بھائیوں بہنوں کے درمیان “باری بندی” کا نام نہیں۔ یہ تو ایک دوڑ کا نام ہے جو جنت کے دروازوں کی طرف جاری ہے اور پتہ نہیں کون پہلے پہنچ جائے۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ جنت کو بہت سے راستے جاتے ہیں اور ان میں سے کئی راستے تیرے والدین سے ہو کر جاتے ہیں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here